بری کپتانی، بد قسمتی،انجریز، زیادہ خوداعتمادی، ٹیم ورک، اسپرٹ کی کمی،پاکستان کی شکست کی وجوہات
… اصغر علی مبارک….
بری کپتانی، بد قسمتی،انجریز، زیادہ خوداعتمادی، ٹیم ورک، اسپرٹ کی کمی، کھلاڑیوں کا غلط انتخاب، ورلڈ کپ میچوں میں پاکستانی ٹیم کی شکست کی وجوہات بنی ہیں۔
ورلڈ کپ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی باڈی لینگویج سے ظاہر ہورہا ہے کہ کھلاڑی ذہنی طور پراس میگا ایونٹ کے لیے پوری طرح تیار نہیں تھے۔ یہ طے ہے کہ پاکستانی ٹیم اب ورلڈ کپ ٹاپ 4 سیمی فائنل کی دوڑ سے مکمل طور پر باہر ہو چکی ہے اب پاکستانی ٹیم کو اپنی پوزیشن کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی
کیونکہ آخری دو ٹیمیں چیمپئن ٹرافی کے لیے کوالیفائی نہیں کر پائیں گی اورآخری دو ٹیمیں اگلے ورلڈ کپ کے لیےکوالیفائنگ ایونٹ کھیلیں گی۔
ورلڈ کپ میں پاکستان کیلئے اگر مگر کا سلسلہ اب بھی برقرار ہے، بظاہر پاکستان کی ٹیم چار میچز ہار کر ٹورنامنٹ سے آؤٹ ہوچکی ہے
تاہم پاکستان کو ٹورنامنٹ میں اب بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ سے میچز کھیلنا ہیں, ورلڈ کپ میں اپنا ساتواں میچ کھیلنے کےلیے پاکستان کرکٹ ٹیم کولکتہ پہنچ گئی ہے۔ پاکستانی ٹیم کا اگلا میچ 31 اکتوبر کو بنگلادیش کے خلاف ہے،
جنوبی افریقا سےصرف ایک میچ کے نتیجے سےکھلاڑیوں کی پرفارمنس کو بہتر نہیں کہہ سکتےکرکٹ میں اگر مگر کی گنجائش تو نہیں ہوتی لیکن کچھ غلطیاں کسی کے گلے میں ہار ضرور ڈال دیتی ہیں۔
وہ لمحے جو عزتوں کے تاج بن جاتے ہیں، کبھی کبھی وہی ذلت کے طوق پہنانے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ پاکستانی ٹیم کی میگا ایونٹ کے لیے کوئی پلاننگ نہیں تھی, بری کپتانی ،بد قسمتی،انجریز، زیادہ خوداعتمادی، ٹیم ورک , ٹیم اسپرٹ کی کمی، غلط انتخاب، ورلڈ کپ میچوں میں پاکستانی ٹیم کی شکست کی وجوہات بنی ہیں۔
پاکستان کو ٹورنامنٹ میں اب بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ سے میچز کھیلنا ہیں۔ سیمی فائنل تک رسائی کیلئے سب سے پہلے تو پاکستان کو اپنے بقیہ تینوں میچز جیتنے ہیں اور وہ بھی اچھے مارجن سے جیتنے ہیں,
اپنے میچز جیتنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو یہ دعا بھی کرنا ہوگی کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقا اور سری لنکا سے بھی ہار جائے۔ اگر ایسا ہی ہوا تو پھر پاکستان کے 10 پوائنٹس ہوجائیں گے اور نیوزی لینڈ کے 8 پوائنٹس رہیں گے۔
لیکن ساتھ ساتھ دوسری جانب سری لنکا کے رزلٹ بھی پاکستان کی نظروں میں رہیں گے۔ سری لنکا کو اب افغانستان، بھارت، بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ سے کھیلنا ہے۔ اگر مگر کا سلسلہ اب بھی برقرار ہے،
پاکستان کی ٹیم چار میچز ہار کر بھی ٹورنامنٹ سے آؤٹ نہیں ہوئی تاہم اس کی ساری امیدیں اب دیگر ٹیموں کے نتائج سے بھی جڑ گئی ہیں۔ پوائنٹس ٹیبل پر نظر دوڑائی جائے تو میزبان بھارت کے ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کی سیمی فائنل میں رسائی یقینی ہے کیونکہ بھارت اور جنوبی افریقہ دونوں نے پانچ، پانچ میچوں میں کامیاب حاصل کر رکھی ہے
جبکہ نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی 5 میں سے 4 مقابلے جیت چکی ہے۔ سیمی فائنل تک رسائی کے لیے پاکستان کی راہ میں سب سے بڑا چیلنج اس وقت آسٹریلیا کی ٹیم ہے جو اب تک اپنے 5 میں سے 3 میچ جیت چکی ہے
اور پاکستان کو اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے نہ صرف اس کے چار میں سے تین یا کم از کم دو میچوں میں ناکامی کی دعا کرنی ہو گی بلکہ ساتھ ساتھ اپنا رن ریٹ بھی بہتر بنانا ہو گا۔
تاہم مشکل یہ ہے کہ آسٹریلیا کو چار میں سے دو میچز بنگلہ دیش اور افغانستان جیسی نسبتاً کمزور ٹیموں کے خلاف کھیلنے ہیں تاہم حالیہ فارم کو دیکھتے ہوئے امید کی جا سکتی ہے کہ افغانستان کی ٹیم آسٹریلیا کو بھی شکست دے سکتی ہے۔ اگر آسٹریلیا کی ٹیم افغانستان یا بنگلہ دیش میں سے کسی بھی ٹیم سے میچ ہار جاتی ہے تو اس کے بقیہ دونوں میچز نیوزی لینڈ اور انگلینڈ جیسے مضبوط حریفوں سے ہیں۔
انگلینڈ کی ٹیم کی اب تک اس ورلڈ کپ میں کارکردگی واجبی رہی ہے لیکن 5 میں سے چار میچز ہارنے والی دفاعی چیمپیئن ٹیم کی نگاہیں بھی اگلے مرحلے تک رسائی پر مرکوز ہوں گی۔آسٹریلیا کے اگلے دونوں مقابلے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ سے ہیں اور یہ دونوں میچز ہارنے کے بعد ان کی بھی ٹورنامنٹ کے اگلے مرحلے میں رسائی کے امکانات انتہائی کم ہو جائیں گے۔
اس کے بعد اگر آسٹریلیا بنگلہ دیش اور افغانستان کے خلاف ہونے والے اپنے آخری دونوں میچز میں سے کوئی ایک میچ بھی ہارتی ہے تو ایسی صورت میں پاکستان کی ٹیم سیمی فائنل میں جگہ بنا لے گی۔ البتہ اگر پانچ مرتبہ کی چیمپیئن آسٹریلین ٹیم اپنے چار میں سے دو میچز جیت جاتی ہے
تو ایسی صورت میں معاملہ نیٹ رن ریٹ پر چلا جائے گا اور پاکستان اور آسٹریلیا میں سے بہتر رن ریٹ کی حامل ٹیم اگلے مرحلے میں جگہ بنا لے گی۔ اگر آسٹریلیا کی ٹیم اپنے چار میں سے تین میچز جیت لیتی ہے تو پاکستان اور انگلینڈ دونوں ہی ٹیمیں ورلڈ کپ میں سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو جائیں گی۔
پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ سری لنکا کی ٹیم نیوزی لینڈ کو شکست دے مگر ساتھ ساتھ بھارت، بنگلہ دیش اور افغانستان میں سے صرف ایک ہی میچ جیتے، اگر سری لنکا بقیہ چار میں سے تین میچز جیتا تو اس کے بھی 10 پوائنٹس ہوجائیں گے۔ نیوزی لینڈ اگر تین میں سے ایک بھی میچ جیتا تو اس کے بھی 10 پوائنٹ ہوجائیں گے۔
ایسی صورتحال میں پاکستان کا کافی انحصار نیٹ رن ریٹ پر ہوجائے گا۔ ٹورنامنٹ کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کی امیدیں اب بھی برقرار ہے اور آخر تک اس آس کو زندہ رکھنے کیلئے ضروری ہے
کہ پاکستان میچز میں ,دلیری اور بہادری کا مظاہرہ کرے,ورلڈکپ جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں قومی ٹیم کو شکست کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی لگ گیا, پاکستان ٹیم پر جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں سلو اوور ریٹ پر جرمانہ عائد کیا گیا
قومی کھلاڑیوں پر میچ فیس کا 20 فیصد جرمانہ لگایا گیا ہے۔ پاکستانی ٹیم مقررہ اوورز میں 4 اوورز پیچھے تھی۔ آئی سی سی رولز کے مطابق ہر اوور پر 5 فیصد میچ فیس کی کٹوتی ہوتی ہے۔واضح رہے
کہ ورلڈکپ میں پاکستان کے خلاف جنوبی افریقی کھلاڑی کے آؤٹ پر بال ٹریکنگ میں ہوئی غلطی پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل , آئی سی سی کا بیان سامنے آگیا ہے۔ اس سنسنی خیز میچ میں جنوبی افریقی ٹیم نے میچ ایک وکٹ سے اپنے نام کرلیا۔
میچ میں ٹیلی ویژن پر دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب 19ویں اوور میں اسامہ میر کی گیند پر وین ڈر ڈوسن ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہوئے جس پر ڈوسن نے آن فیلڈ امپائر کے فیصلے کو ریویو کروانے کا فیصلہ کیا۔ تھرڈ امپائر بال چیکنگ کر ہی رہا تھا کہ اس دوران ٹیلی ویژن پر بال ٹریکنگ دکھادی گئی
جس میں ڈوسن کو ناٹ آؤٹ قرار دیا گیا تاہم اگلے ہی لمحے وہ غائب ہوئی دوبارہ سے بال ٹریکنگ کے دوران ڈوسن آؤٹ قرار دیے گئے۔ ٹیکنالوجی سے متعلق سوال اٹھنے لگے تو آئی سی سی نے بھی اس کا جواب دیتے ہوئے اسے غلطی قرار دیا۔
ترجمان آئی سی سی کا کہنا تھا کہ "پاکستان اور جنوبی افریقہ کے میچ کے دوران رسی ون ڈر ڈوسن کے ریویو پر غلطی سے نامکمل گرافکس دکھا دی گئی تھیں، تاہم مکمل گرافکس درست ڈیٹیلز کے ساتھ دکھائی گئیں۔”جنوبی افریقا سے میچ میں 2 فیصلے پاکستان کے خلاف گئے۔ ایک وائیڈ بال اور ایک ایل بی ڈبلیو کا فیصلہ پاکستان کے حق میں نہیں گیا۔
ورلڈ کپ کے میچ میں جنوبی افریقا نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد پاکستان کو ایک وکٹ سے شکست دی تھی۔
پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاکستان کی پوری ٹیم 47 ویں اوور میں 270 رنز پر آؤٹ ہوگئی تھی، 271 رنز کا ہدف جنوبی افریقا ٹیم نے 47 اعشاریہ 2 اوورز میں 9 وکٹ کے نقصان پر حاصل کرلیا۔
یاد رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ڈائریکٹر مکی آرتھر نے کہا ہے کہ ہم ورلڈ کپ کے معیار کی کرکٹ نہیں کھیل پارہے۔شکست پر مکی آرتھر نے کہا کہ پاکستان نے اچھی بیٹنگ نہیں کی، یہاں 300 رنز ہونا تھا۔
پاکستان ٹیم کے ڈائریکٹر نے مزید کہا کہ کوشش سب کر رہے مگر ہماری بیٹنگ فارم میں نہیں آرہی، ہم اس معیار کی کرکٹ نہیں کھیل پارہے جو ورلڈ کپ میں درکار ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے خلاف ہم تینوں شعبوں میں ایوریج تھے، کوشش کریں گے کہ بقیہ 3 میچ جیت کر اچھے انداز میں ٹورنامنٹ ختم کریں، ہم نے آخری اوورز میں اچھی بیٹنگ نہیں کی۔
آخری 5 اوورز ٹھیک طرح نہیں کھیل سکے، اگر 300 کر جاتے تو اسکا دفاع ہوسکتا تھا، ہم نے یہ ٹورنامنٹ اچھا نہیں کھیلا۔بابراعظم بھارت میں ایک ماہ سےہیں اس کے باوجود وہ ان پچوں پر ماہر بلے بازوں کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے ہیں اور ہر میچ میں غلط فیصلے کرتے رہے ہیں جس پچ پر 300 سے زائد رنز اسکور کرنے چاہیے تھے،
اس پر ٹیم پورے اوورز بھی نہیں کھیل سکی بابراعظم بھارت میں ایک ماہ سےہیں اس کے باوجود وہ ان پچوں پر ماہر بلے بازوں کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے ہیں اور ہر میچ میں غلط فیصلے کرتے رہے ہیں جس پچ پر 300 سے زائد رنز اسکور کرنے چاہیے تھے، اس پر ٹیم پورے اوورز بھی نہیں کھیل سکی,
پاکستان کے 47 اوورز کے اختتام پر فاسٹ بولرز کے اوورز ختم ہوگئے تھے اورسوال یہ تھا کہ باؤلنگ کون کرے ؟ اسامہ میر یا محمد نواز؟ نواز کی باؤلنگ پر فیلڈ غلط سیٹ ہوئی جس نے مہاراج کو موقع دے دیا کہ وہ چوکا مار دیں۔ یہاں نواز سے غلطی ہوئی، پچ کو جانچے بغیر تیز گیند کی شارٹ پچ ہوئی اور وننگ چوکا لگ گیا۔
یہی وہ لمحہ تھا جب سارے خواب بکھر گئے ایک غلطی نے درست فیصلے کی طاقت چھین لی۔ بابراعظم اسامہ کو لانا چاہتے تھے لیکن ساتھی کھلاڑیوں کے مشورے کے دباؤ میں آگئے اور نواز کو اوور دے بیٹھے۔ چنئی میں بھی یہی ہوا۔ پاکستان پر ایک اور شکست کا داغ لگ گیا اور اس شکست نے بظاہر ورلڈکپ میں پاکستان کےسفرکوختم کر دیا ہے۔