سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میںاحتساب وقت کی اہم ترین ضرورت
مسرت اللہ جان
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں احتساب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور یہ احتساب صرف پی ٹی آئی دور حکومت کا نہیں بلکہ گذشتہ بیس سالوں سے ہونا چاہئیے اور احتساب کے اس عمل میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے وابستہ تمام افراد کو شامل کیا جائے
بشمول ملازمین ، دوسرے اداروں سے آنیوالے پی ایم ایس افسران ، کنٹریکٹرز ، ایسوسی ایشن سے وابستہ افراد اور کھیلوں کی کوریج کرنے والے صحافی بھی اس احتساب میں شامل ہوں اسی طرح کھیلوں کی وزارت سے وابستہ تمام وزراءجنہوں نے اپنے دور میں اپنے لوگوں کو نوازنے کی کوشش کی .
تاکہ پتہ چل سکے کہ آج سے بیس سال قبل ڈیپارٹمنٹ میں آنیوالے تمام افراد کی حیثیت کیا تھی اور آج ان کی حیثیت کیا ہے اور انہوں نے کھیلوں کے میدان سے کیا کمائی کی ، احتساب ان نام نہاد بڑے کھلاڑیوں کا بھی کیا جائے
جو کوچنگ کے نام پر بھاری بھر کم مراعات صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے لیتے ہیں لیکن بدلے میں کچھ بھی نہیں کرسکے ہیں اور نہ ہی اپنے شعبے میں کوئی بڑا نام پیدا کرسکے ہیں.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کام کرنے والے ملازمین نومبر2023 کی تنخواہ کو رو رہے ہیں حالانکہ دسمبر میں بھی چار دن رہ گئے ہیں ان ملازمین کو تین ماہ قبل لیا گیا تھا اسی طرح تین سو کے قریب ملازمین جس میں کوچز بھی شامل ہیں
اور ایسے کوچز جنہوں نے کم و بیش سات سے آٹھ سال کوچنگ کرتے ہوئے گزار دی لیکن وہ بھی بیک جنبش فارغ ہیں اور ان کیلئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس فنڈز نہیں.اوران کے گھر والے پریشان ہیں کہ کریں تو کیا کریں .
تین ماہ سے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کو فیول کی سہولت میسر نہیں کہ انہیں جو سرکاری کوٹہ مل رہا ہے وہ نہیں مل رہا اور فنڈز نہیں.
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ بعض ایسے افسران ہیں جن کے گھروں میں تین اور چار گاڑیاں ہیں جنہیں فیول بھی ان گاڑیوں کے حساب سے لاکھوں روپے کا ملتا رہا ہے ، ان کے بچوں کیلئے بھی گاڑی ہے بعض ایسے افسران بھی گزرے ہیں جنہوں نے ڈیپارٹمنٹ کب سے چھوڑا ہے لیکن ان کے پاس گاڑیاں گھروں میں تھی ان میں پراجیکٹ کی گاڑیاں بھی شامل ہیں
اور ابھی بھی یہ حال ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی گاڑیوں کی تفصیلات کسی کے پاس نہیں کہ گاڑیاں کس کے پاس ہیں. کچھ عرصہ قبل پارکنگ میں کھڑی سپیشل افراد کی گاڑی سے انجن غائب ہونے کا واویلا مچایا گیا اور تین ماہ ڈرائیور کی تنخواہ بند کردی گئی لیکن پھر کچھ بھی نہیں ہوا اور فائل بند کردی گئی .اب سبھی یہ کہتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے اور اس میں سب کچھ جائز ہے
کھیلوں کی ڈائریکٹوریٹ سے وابستہ ایسوسی ایشنز کتنے رجسٹرڈ ہیں اور کن کے پاس ہے ، کتنے ممبران ہیں ، کتنے کلب ہیں اور ان کی سہولیات کیا ہے اس بارے میں کسی کو معلومات نہیں ، یہ بنیادی طور پر ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کا کام ہے لیکن ان سے کون پوچھے گا کہ سال 2018سے پاس ہونیوالی سپورٹس پالیسی پر اب تک کس نے عمل کیا
اورکتنے کلب رجسٹرڈ کئے گئے ، کتنے ایسوسی ایشنز رجسٹرڈ ہیں اوران کے انتخابات حقیقی معنوں میں ہوئے ہیں ، کون سے ایسوسی ایشن صرف رشتہ داریوں پر چل رہے ہیں اور ان ایسوسی ایشنز پر کب سے لوگ قابض ہیں ، ایسے لوگ بھی جنہیں متعلقہ کھیلوں کے بارے میں کوئی علم بھی نہیں لیکن وہ سالہا سال سے متعلقہ کھیلوں کے ایسوسی ایشنز پر قابض ہیں. کیا ان احتساب کرنا ضروری نہیں.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کتنے ملازمین ہیں جن کے کاغذات جعلی ہیں جنہو ں نے انٹر ڈسٹرکٹ سطح کے مقابلے نہیں جیتے لیکن وہ بین الاقوامی کھلاڑی بن گئے ہیں اور اس بنیاد پر انہیں ملازمتیں ملی ہیں ،
ایسے افراد بھی ہیں جن کے کاغذات کو کوئی بھی فیڈریشن ماننے کو تیار نہیں لیکن انہیں ڈیپارٹمنٹ میں مستقل ملازمتیں دی گئی اسی طرح انہیں پروموشن دی گئی ، اس طرح سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کتنے ملازمین ہیں جو مختلف ایسوسی ایشنز کے آلہ کار بلکہ ان کے عہدوں پر قابض ہو کر کبھی ایسوسی ایشن سے مراعات لیتے ہیں
اور کبھی ڈائریکٹوریٹ سے مراعات لیتے ہیں ، کیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے وابستہ ملازمین ٹھیکیداری کرسکتے ہیں ، کیا ان کا احتساب ضروری نہیں.
آج سے بیس سال قبل آنیوالے ملازمین کی حقیقت کیا ہے تنخواہوں میں تو آج کل گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوسکتے ایسے میں کون لمبی چوڑی گاڑیاں رکھ سکتا ہے ، کون کاروبار کرسکتا ہے ،
کون بیرون ملک ٹورز پر جاسکتا ہے اور کون عمرے وہ حج پر جاسکتا ہے یہ الگ بات کہ کرایوں میں بندہ ڈنڈہ مارے تو پھر عمرے اور حج بھی ہوسکتے ہیں ، کیا ان کا احتساب ضروری نہیں.
ملکی ادارو ں ، سیاستدانوں پر پر کرپشن اور کام نہ کرنے کے الزامات لگانے والے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے ملازمین کیا یہ بتا سکتے کہ انہوں نے کتنی ڈیوٹیاں کی ، کتنے گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں اورایسے کتنے ملازمین ہیں جن کے نام کی فہرستیں تو ہوتی ہیں لیکن وہ افسران کے رشتہ دار ہوتے ہیں ڈیوٹیاں بھی نہیں کرتے
لیکن تنخواہیں ضرور لیتے ہیں -کتنے ملازمین ہیں جو صرف ہوا ہوری کیلئے آتے ہیں کتنے ایسے لوگ ہیں جومساجد میں پہلی صف میں بیٹھ کر نمازیں پڑھتے ہیںلمبی دعائیں کرتے ہیں لیکن ان کے کردار سے سب واقف ہیں.کیا ان کا احتساب ضروری نہیں.
اور ہاں ان تمام صحافیوں کا احتساب بھی ضروری ہے جو کھیلوں کی کوریج کرتے ہیں آج سے بیس سال پہلے ان کی اوقات کیا تھی ، کتنے صحافیوں پر ان کی اعمال کی وجہ سے گرلز کالجز میں پابندیاں لگی ، کتنے کھلاڑیوں کا ان لوگوں نے پیسے کھائے اور کتنے کھلاڑیوں کو سامنے لاکر ان سے انعام کی رقم میں ڈنڈی مار دی ،
یہ صحافی کون کونسے کاروبار بھی وابستہ ہیں ، کیا انہیں صحافی بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ صحافی تووہ ہے جس کا سب کچھ گھر بار قلم سے چلتا ہو لیکن کیا ان صحافیوں کے کاروبار کسی نے چیک کئے ہیں ، کتنے نام نہاد صحافی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کے کاروباری پارٹنر رہے ہیں ، کتنے اخبارات سے وابستہ ہیں اور کتنے سرکار سے وابستہ ہیں اور کیا ان کے ادارے ہیں بھی یا نہیں یا صرف نام کے صحافی ہیں .کیا ان کا احتساب ضروری نہیں.
اگر ان کا احتساب کیا گیا تو پھر پتہ چل جائے گا کہ ڈائریکٹریٹ کیوں اتنا کمزور ہے اور اسے کمزور کرنے والوں میں کون کون شامل ہیں ، کیا ان کا احتساب نہیں ہوسکتا ، یا پھر یہ طاقتور لوگ ہیں یا پھر ادارے ان کا احتساب کرتے ہوئے ڈرتے ہیں
یہ وہ سوال ہیں جو آج کل کھلاڑی بہت زیادہ کرتے ہیں کیونکہ اس شعبے کے اہم ترین سٹیک ہولڈر تو یہی لوگ ہیں جنہیں فائدہ اتنا نہیں پہنچ رہا جتنا ان کا حق ہے.