ویٹ لفٹنگ پاکستان کا مقبول کھیل ہے،
صوبائی حکومت کو اس کی ترقی اورنئے ٹیلنٹ کی تلاش میں حکومت کو اپناکلیدی کردار اداکرناچاہیے ،سیکرٹری شیرازمحمد
پاکستان بھر سمیت خیبر پختونخوامیں بھی خواتین ویٹ لفٹرزہیں،لیکن انہیں روزمرکے طور پر ٹریننگ اورجگہ مختص نہیں ،میڈیاسے گفتگو
غنی الرحمن
خیبر پختونخوا ویٹ لفٹنگ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل شیرازمحمد نے کہاہے کہ ویٹ لفٹنگ پاکستان کا مقبول کھیل ہے تاہم خیبر پختونخواحکومت کی جانب توجہ نہیں دی جارہی ہے ،
ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے ،فقط سہولیات کا فقدان ہے ،حکومتی سرپرستی نہ ہونے سے ٹیلنٹ ضائع ہورہاہے ،پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں کھلاڑیوں کوٹریننگ کیلئے ویٹ اٹھانے کاسامان نہیں ،یہ سامان بہت مہنگاہے ،
صر ف ایک سیٹ کی قیمت دو لاکھ روپے تک ہے، صوبائی ایسوسی ایشن اپنی مددآپ کے تحت اس کھیل کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں ،فنڈزاوربنیادی سہولیات کی عدم دستیابی سے مشکلات درپیش ہے ۔
یہ باتیں انہوںنے گزشتہ روز ایک خصوصی انٹر ویوکے دوران کہی ۔انہوںنے کہاکہ بڑی خواہش ہے کہ صوبے میںزیادہ سے زیادہ مقابلے منعقد کرائے ،لیکن محکمہ کھیل کی جانب سے تین سال سے ایسوسی ایشن کا سالانہ گرانٹ بند ہے ،
ہمارے ہاتھ پاﺅں باندھے ہوئے ہیں ،ضلعی ایسوسی ایشنز کوسامان دے سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی ایونٹ کراسکتے ،ایک راڈ 80ہزار روہے کا ہے جبکہ پوارا سیٹ دو لاکھوں روپے سے زائد کی ہے ۔
انہوںنے کہاکہ خیبر پختونخوامیں کھیل ایک ایسا شعبہ ہے جس کاکوئی والی وارث نہیں ،صوبائی دارالحکومت میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے تو اضلاع میں تو اندھیر نگری ہے،
ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز(ڈی ایس اوز)تو یہاں تک معلوم نہیں کہ انکے ضلع میں کھیل کسی کھیل کے کتنے کلب ہیں۔۔؟۔اور وہاں کسی ایسوسی ایشن کے عہدیدار کون ہیں ۔
حالانکہ ویٹ لفٹنگ کا اپنی ایک حیثیت اور مقبولیت ہیں ،جو ازمانہ قدیم سے ہی ویٹ لفٹنگ کو ایک معروف کھیل کے طور پرسمجھاجاتاہے ،بلکہ یہ کھیل انسان کی قوت اور مردانگی کے مترادف تصور کیا جاتا رہا ہے،
سابق ادوار میں ویٹ لفٹنگ کے مقابلے اکثر وزنی پتھر، درخت کے بھاری تنے یا گائے بیل وغیرہ اٹھانے پر مبنی ہوا کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال قدیم یونان کے مائیلو نامی شخص کی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کندھوں پر ایک وزنی سانڈ کو اٹھا کر کئی سو گز تک لے گیا تھا۔
موجودہ یونان میں بعض ایسے وزنی پتھر دریافت ہوئے ہیں جن پر انہیں ا ±ٹھانے والوں کے نام کندہ ہیں۔ورزشی تقاضوں کے اعتبار سے ویٹ لفٹنگ جسم کو مضبوطاور خوبصورت بنایاتاہے۔ تاہم ان میں ایک واضح فرق بھی ہے کہ ویٹ لفٹنگ صرف مردانہ کھیل ہے،اب تو زنانہ بھی ایک کھیل میں خاصی دلچسپی لے رہی ہیں،
دنیابھر سمیت پاکستان میں بھی خواتین کے ویٹ لفٹنگ مقابلوں کاانعقاد کیاجاتاہے۔جدید ویٹ لفٹنگ کا رواج بھی انیسویں صدی عیسوی میں پڑا، حالانکہ بنیادی ضرورت کی حیثیت سے وزن اٹھانے(ویٹ لفٹنگ) کا کام انسان ابتدائے سے انجام دے رہا ہے۔ ویٹ لفٹنگ کا شوق مشرق میں زمانہ قدیم سے رائج ہے۔
مورخین نے لکھاہے کہ دنیا کا پہلا عالمی ویٹ لفٹنگ کا مقابلہ لندن کے کیفے ما میں 1891ءمیں منعقد ہوا ،جو انگلستان کے لارنس لیوی نے جیتا۔ویٹ لفٹنگ کو شروع ہی سے جدید اولمپک میں شامل کر لیا گیا تھا۔
لہٰذا1896ءمیں پہلی بار اولمپک مقابلے منعقد ہوئے ،تو اس میں بھی ویٹ لفٹنگ کے دو ہاتھ اور ایک ہاتھ سے وزن اٹھانے کے دو مقابلے شامل تھے۔1904ءکے اولمپک کھیلوں میں بھی ویٹ لفٹنگ کا یہی طریقہ مروج تھا۔
لیکن 1930ءمیں عالمی ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا تو اس فن کو ان جدید خطوط پر استوار کیا گیا جن پر آج بھی یہ مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔انہوںنے ویٹ لفٹنگ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہاکہ 1930ءاور 1935ءکے درمیان اس فن میں فرانس اور جرمنی کے کھلاڑیوں کو اولیت حاصل تھی
لیکن اس کے فوراً بعد ہی مصری ویٹ لفٹروں نے بڑی مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے دنیا کے تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے 1953ءتک اس میدان میں ریاستہائے امریکہ کے ویٹ لفٹرز اور 1953ءکے بعد سوویت روس کے کھلاڑی دنیا پر چھائے رہے۔
انکاکہناتھاکہ پاکستان کے علاقوں میں ویٹ لفٹنگ کا رواج تقسیم ہند سے پہلے بھی موجود تھا۔ ہندوستان میں اس خطے کے ویٹ لفٹر کوبڑی اہمیت حاصل تھی۔ حالانکہ پنجاب ویٹ لفٹنگ ایسوسی ایشن 1939ءمیں قائم ہوئی،
لیکن 1936ءمیں لاہور کے ہیوی ویٹ کھلاڑی محمد تقی بٹ نے کل ہند ویٹ لفٹنگ چمپئن شپ میں جو کلکتہ میں منعقد ہوئی تھی، دوسری پوزیشن حاصل کی۔
1939ءمیں محمد تقی بٹ نے ہندوستان کے چار نئے ریکارڈ قائم کئے۔1940ءکے آل ہند اولمپک مقابلوں ممبئی میں ہیوی ویٹ میں محمد تقی بٹ، لائٹ ویٹ میں شفیق احمد چمپئن قرار دیئے گئے۔
اس طرح 1944ءمیں بھی گیارہویں ہندوستان اولمپک کھیلوں میں بھی محمد تقی بٹ اور شفیق احمد اپنے اپنے وزن میں چمپئن بنے۔ ان دونوں کے علاوہ اس سال مڈل ویٹ مقابلوں میں اقبال بٹ نے اول انعام حاصل کیا،
لیکن پاکستان بننے کے بعد یہ کھیل بری طرح متاثر ہوا۔ پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن پاکستان بننے کے چھ سال بعد1953ءمیں قائم ہوئی۔
پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن نے اب تک پاکستانی ویٹ لفٹروں کو متعدد بار اولمپک، ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز اور دیگرانٹر نیشنل کھیلوں میں شرکت کیلئے بھیجا ہے ۔
لیکن پھر وہی بات کہ حکومت کی جانب سے ویٹ لفٹنگ اور اسکے کھلاڑیوں کی سرپرستی نہیں ہورہی ہے ،جو اس کھیل کے مقبولیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔انہوںنے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ وہ بنیادی طور پرایک باڈی بلڈر ہیںاورجوانی سے ہی ا س کھیل سے وابستہ رہے،
انہوںنے1985میں مسٹر پشاور کا ٹائٹل جیتا،اور1986میں مسٹر خیبر پختونخوابنا،1991ءمیں سپر مسٹر خیبرپختونخواکے چمپئن شپ میں حصہ لیااور اس ٹائٹل کوبھی اپنے گلے کا زینت بنایا،اسی طرح حوصلے بڑھ گئے
اور 1995میں نیشنل باڈی بلڈنگ چمپئن شپ جیتنے میں کامیا ب ہوا۔تو2002سے کوچنگ کی طرف آیااور باقاعدہ نیشنل اور انٹر نیشنل سطح پر کوچنگ کورس کیئے ،جس سے انکے استعدادکار میں اضافہ ہوا،اور اللہ کے فضل سے وہ صوبے میں پاکستان کے کوالیفائڈ کوچز میں سے ایک ہیں۔
شیرازمحمد نے کہاکہ2008میں خیبر پختونخواویٹ لفٹنگ ایسوسی ایشن کا سیکرٹری بنااور آج تک اس کھیل کی ترقی اور ٹیلنٹ کی تلاش میں مصروف ہیں، پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کی نگرانی میں پاکستان میں کئی کورس کیساتھ ساتھ انٹر نیشنل لیول پر بھی ویٹ لفٹنگ کے کورس کرائے ۔
2011ءمیں تھائی لینڈ 2015, میں ایران اور2023ءکوتاجکستان میں انٹر نیشنل کورس کیئے۔ انہوںنے کہاکہ خیبر پختونخوامیں اس کھیل کا مستقبل تابناک ہے تاہم حکومتی سرپرستی اس کے فروغ میں بڑی رکاوٹ ہے ،
اگر حکومت صحیح معنوںمیں سرپرستی کرے ،کھلاڑیوں کو بنیادی سہولیات مہیاکرے ،تو وہ دن دور نہیں جب خیبر پختونخواکے کونے کونے سے انٹرنیشنل لیول کے باصلاحیت کھلاڑی سامنے آئیںگے ،
جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک وقوم کا نام روشن کرسکیںگے۔ انہوںنے کہاکہ صوبائی ویٹ لفٹنگ ایسوسی ایشن کا چار لاکھ روپے کاگرانٹ ہے جو تین سال سے بند ہے ،
حالانکہ یہ ایساکھیل ہے کہ اس سے وابستہ کھلاڑی کیلئے اچھی خوارک کی ضرورت ہوتی ہے اسکے علاوہ روزمرہ ٹریننگ بھی لازمی ہے،بدقسمتی سے ہماے کھلاڑی کونہ تو اچھی خورک ملتی ہے اور نہ ہی بہتر اندازمیں ٹریننگ مل رہی ہے ،کیونکہ اس کا سامان کافی مہنگاہے ،
صرف ایک سیٹ کی قیمت دو لاکھ روپے سے اوپرہے ،ایک راڈ میں 80ہزار روپے کی ہے ۔ہماری درخواست ہے کہ صوبائی حکومت اور خصوصاًمحکمہ کھیل صوبائی ویٹ لفٹنگ ایسوسی ایشن کی سالانہ گرانٹ فوری طور پر ریلیزکریں،
اور ساتھ ہی ڈسٹر کٹ پشاور سمیت خیبر پختونخواکے تمام ضلعی ایسوسی ایشنزکوفوری طور پر کھلاڑیوں کی ٹریننگ کیلئے سامان مہیاکیئے جائیں۔