’آسمان کا شہر‘ نیویارک میں پاکستانی ٹیم دھڑام سے زمین پرآن گری

’آسمان کا شہر‘ نیویارک میں پاکستانی ٹیم دھڑام سےزمین پرآن گری 
………….اصغرعلی مبارک ,,,,,,,,,,,,,,,,

دریائے ہڈسن کے کنارے آباد نیویارک جو برسوں سے دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرتا رہا ہے، اب کرکٹ میں بھی دنیا پر حکمرانی کی کرنے کی طرف رواں دواں ہے۔’آسمان کا شہر‘ نیویارک میں پاکستانی ٹیم دھڑام سےزمین پرآن گری ,

نیویارک جسے ’آسمان کا شہر‘ بھی کہتے ہیں، آئی سی سی نے ایک مصنوعی اسٹیڈیم بناکر اسے کرکٹ کا مرکز بنانے کی کوشش کی ہے۔

اس سال پاکستانی ٹیم نے اب تک 17 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے ہیں جن میں سے 5 میں فتح جبکہ 10 میں شکست کا سامنا کیا۔ پچھلے چھ ماہ میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے کپتان کی کمان بابر اعظم سے شاہین آفریدی اور پھر بابر اعظم کے پاس واپس پہنچ چکی ہے۔

محمد عامر اور عماد وسیم جو انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے چکے تھے، اپنی ریٹائرمنٹ واپس لے کر ٹیم کے ساتھ ہیں لیکن قومی ٹیم کی کارکردگی بہتر ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔

پاکستان دو شکستوں کے بعد گروپ میں دھڑام سے نچلے درجے پر آچکا ہے اور ٹیم دو گروپوں میں منقسم ہوچکی ہے۔ شکست میں جتنا حصہ کھلاڑیوں نے ڈالا اتنا ہی بابر اعظم بھی اس شکست کے ذمہ دار ہیں ,

بھارت سے میچ ہمیشہ روایتی گرم جوشی سے بھرپور اور کانٹے دار ہوتا ہے۔ پاکستان نے اب تک آئی سی سی ایونٹس میں صرف دو بار بھارت کو شکست دی اس دفعہ پاکستان بہت زیادہ پُر امید تھی لیکن بھارت, امریکا کی شکستوں نے تمام دعوے کھوکھلے ثابت کردیے ہیں۔

خراب کپتانی کی وجہ سے میچ ہاتھ سے نکلا شکست کو پاکستانی کرکٹ شائقین برسوں بھلا نہیں سکیں گے۔
پاکستانی ٹیم کی ناقص کارکردگی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ پاکستانی بلے باز ابھی تک جدید طرز کی ٹی ٹوئنٹی اپروچ اپنانے میں ناکام ہیں۔

بابر اعظم اور محمد رضوان رنز تو بنا رہے ہیں لیکن ان کا اسٹرائیک ریٹ 130 کے آس پاس ہی رہتا ہے جن سے آج کے دور میں ایک بڑا ہدف کھڑا کرنا ممکن نہیں۔ وہیں پاکستانی ہارڈ ہٹرز اکثر و بیشتر ناکامی کا سامنا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان سپر لیگ اور دوسری لیگز کی کارکردگی کو بین الاقوامی سطح پر بہت کم ہی دہرا پاتے ہیں اور یوں پاکستانی ٹیم اکثر 15، 20 رنز شارٹ ہی رہ جاتی ہے۔

محمد عامر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے میچ کے کھلاڑی ہیں لیکن بڑے میچ میں پرفارم کرنے کے لیے پہلے اس بڑے میچ کے لیے کوالیفائی کرنا بھی ضروری ہےامریکہ کے خلاف شکست کی سب سے بڑی وجہ سپر اوور میں محمد عامر کی ناقص بولنگ ہے۔

اور ابھی تک عامر کی باؤلنگ میں وہ دم خم نظر نہیں آیا جو پاکستان کو میچز تک لے جا سکے۔ محمد عامر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے میچ کے کھلاڑی ہیں لیکن بڑے میچ میں پرفارم کرنے کے لیے پہلے اس بڑے میچ کے لیے کوالیفائی کرنا بھی ضروری ہے

امریکہ کے خلاف شکست کی سب سے بڑی وجہ سپر اوور میں محمد عامر کی ناقص بولنگ ہے۔ اور ابھی تک عامر کی باؤلنگ میں وہ دم خم نظر نہیں آیا جو پاکستان کو میچز تک لے جا سکے۔ خود کپتان اعظم خان، شاداب خان , عثمان خان کی کارکردگی سے پریشان ہیں۔

بابر اعظم آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ کرکٹ باتوں سے نہیں گیند اور بلے سے کھیلی جاتی ہے۔کپتان، کوچ , سلیکٹربھی ایک پیج پر نہیں جبکہ آدھے کھلاڑی بابر اعظم اور آدھے شاہین آفریدی کے ساتھ ہیں , سپر ایٹ مرحلے تک نہ پہنچنے پر بابر اعظم کی کپتانی بھی خطرے میں پڑگئی

اگرچہ شکست کے آثار تو انگلینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف شکستوں نے ظاہر کردیے تھے لیکن سب پُرامید تھے کہ پاکستانی ٹیم نے سبق سیکھ لیا ہوگا مگر نہ سبق سیکھا اور نہ ہی کرکٹ۔ سیکھی ,

واضح رہے کہ قومی کرکٹ ٹیم، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے اپنے پہلے دونوں میچز ہار چکی ہے۔اسے پہلے امریکا سے اپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر بھارت کے خلاف آسان ہدف بھی عبور نہ ہوسکا ۔

ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف قومی ٹیم کی شکست اور 120 رنز کے ہدف کے حصول میں ناکامی پر پوری قوم کے ساتھ ساتھ سابق کرکٹرز بھی شدید برہم ہیں

سابق کپتان وسیم اکرم نے خراب کارکردگی پر قومی ٹیم میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا ہے, وسیم اکرم نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ٹیم کو دشمن کی ضرورت نہیں ہے، یہ خود ہی بہت ہیں۔انہوں نے کہا کہ اب ہم ان کے منہ میں کیا چوسنی ڈالیں گے،

ان کو بتائیں گے صورتحال کے بارے میں آگاہی کیا ہوتی ہے، یہ آٹھ سے 10سال سے کھیل رہے ہیں کیا انہیں بابر اور کوچ بتائیں گے کیسے کھیلنا ہے۔انہوں نے وکٹ کیپر بلے باز رضوان کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کیا رضوان کو میں بتاؤں گا کہ سب سے اہم باؤلر ایک اوور کے لیے آیا ہے تو وکٹ لینے آیا ہے

تم اس کی گیند پر سنگل لے لو۔ ٹیم نے 10 اوورز کے بعد کوئی چوکا ہی نہیں مارا اور کوشش بھی نہیں کی، 120 رنز کے ہدف کا تعاقب بھی نہ کر سکے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اب شرمندگی محسوس ہونا شروع ہو گئی ہے،

بطور پاکستانی میں پاکستانی ٹیم کو مکمل سراہنا چاہتا ہوں لیکن کسی چیز کی حد ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے کہ ہار گئے، امریکا نے اچھی کرکٹ کھیلی لیکن ایک پیشہ ورانہ کرکٹر کو یہ سب بھول کر آگے بڑھنا ہوتا ہے،

انہیں اسی کے پیسے دیے جاتے ہیں، پیسوں کے علاوہ یہ ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔یہ کھلاڑی اتنے عرصے کھیل رہے ہیں، افتخار کا مجھے پتا ہے کہ اگر میں اسے باؤلنگ کروں تو وہ کس طرف شاٹ مارے گا، 15 سال سے کھیل رہے ہو،

کچھ آف اسٹمپ پر بھی مارنا سیکھ لو، جو لوگ ڈیٹا دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ سب نوٹ کرتے ہیں، آپ نے بطور بیٹسمین اور باؤلر دیگر چیزیں کرنی ہوتی ہیں۔ ملک کے موجودہ کرکٹ کے سیٹ اپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سابق کپتان نے مزید کہا کہ پچھلے ایک سال میں تین چیئرمین بدلے ہیں،

ساتھ میں تین کوچ بدلے ہیں تو کھلاڑیوں کو پتا ہے کہ ہم نے نہیں ہٹنا بلکہ یہ کوچ ہٹ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی نئی ٹیم لائی جائے۔

کوالیفائنگ راؤنڈ میں ناکامی کے باوجود میزبان ملک ہونے کی حیثیت سے ٹورنامنٹ میں شامل ہونے والی امریکی ٹیم نے اس ٹیم کو شکست دی جسے چیمپیئن بننے کی دوڑ میں فیورٹ سمجھا جارہا تھا۔

وہ ٹیم جس کے لیے چیئرمین کرکٹ بورڈ بڑے بڑے دعوے کررہے تھے، وہی ٹیم اپنے پہلے ہی میچ میں چاروں شانے چت ہوگئی ورلڈ کپ جیسے میگا ایونٹ سے قبل ٹیم 25 ڈالرز میں آٹو گراف اور 100 ڈالرز میں میٹ اپ بیچ رہی تھی۔

یعنی پوری ٹیم کی توجہ پیسے کمانے پر تھی ۔پاکستان کی ٹیم جس ڈگر پر چل پڑی ہے، اس سے ایسے ہی نتائج سامنے آئیں گے۔ اس پورے معاملے میں سینئر منیجر وہاب ریاض آگے آگے نظر آئے۔

کس کا کتنا حصہ ہے اور کہاں کہاں منافع جائے گا یہ تو نہیں معلوم لیکن 18ویں نمبر کی ٹیم سے شکست کھا کر قومی کرکٹ ٹیم نے پوری قوم کو مایوس کیا ہے۔پاکستان آئی سی سی ایونٹس میں ایک دفعہ کے علاوہ ہمیشہ شکست سے دوچار ہوا ہے۔

دوسری طرف چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ لگتا تھا کہ کرکٹ ٹیم کا چھوٹی سرجری سے کام چل جائے گا، بھارت کیخلاف انتہائی خراب کارکردگی کے بعد یقین ہوگیا ہے

کہ ٹیم میں بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ میچ کے بعد چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ محسن نقوی نے کہا کہ شکست ہر لحاظ سے مایوس کن تھی،

پاکستانی کرکٹ اس وقت اپنی سب سے کم درجہ کی پرفارمنس پر ہے، لگتا تھا کہ کرکٹ ٹیم کا چھوٹی سرجری سے کام چل جائے گا لیکن آج کی انتہائی خراب کارکردگی کے بعد یقین ہوگیا ہے کہ ٹیم میں بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔

چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ قوم جلد بڑی سر جری ہوتی ہوئے دیکھے گی، ہمارا سب سے بڑا چیلنج ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے، ہمیں چیمپئنز ٹرافی کے لیے ٹیم تیار کرنی ہے اور وقت آگیا ہےکہ باہر بیٹھےنئے ٹیلنٹ کو بھی موقع دیا جائے ۔

محسن نقوی نے کہا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دنیا کی ایک بہترین ٹیم بنانا ہے، اچھی طرح معلوم ہے کہ ٹیم میں کیا چل رہا تھا اور ہارنے کی وجوہات کیا ہیں۔

چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کا مزید کہنا تھا کہ قوم کرکٹ ٹیم سے ایسی مایوس کن کارکردگی کی توقع نہیں رکھتی۔واضح رہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بیٹرز کی لاپروائی ،

غیر ذمہ داری اور غفلت نے پاکستان کو جیتا ہوا میچ ہروا دیا۔بھارت نے میچ 6 رنز سے جیت کر پاکستان کی سپر ایٹ تک رسائی تقریباً ناممکن بنا دی، اگر امریکہ نے آئرلینڈ کو ہرا دیا تو پاکستان کے لیے ورلڈ کپ کا سفر ختم ہوسکتا ہے۔۔

واضح رہے کہ اسسٹنٹ کوچ اظہر محمود کا کہنا ہےکہ دو شکستوں کے بعد ہر کوئی کافی مایوس ہے، بھارت سے میچ ہارنا امریکا کے خلاف شکست سے زیادہ دُکھ دیتا ہے، نسیم شاہ اور شاہین آفریدی سے بیٹنگ کی توقع نہیں رکھ سکتے،

یہ کام شروع کے 7 بیٹرز کا ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے اسسٹنٹ کوچ کا کہنا تھا کہ بھارت کے خلاف میچ میں ہمارے بیٹرز کی شاٹ سلیکشن ٹھیک نہ تھی، 6 کا رن ریٹ 10 پر چلا گیا، ہم میچ میں 15 ویں اوور تک ٹھیک کھیل رہے تھے۔

ہم بطور ٹیم ہارے ہیں، انفرادی کسی کو نہیں کہہ سکتے، دونوں میچز میں ہماری شاٹ سلیکشن اور فیصلے ٹھیک نہ تھے، اس وقت ٹیم میں ہر کسی کا مورال ڈاؤن ہے، اس کو اٹھانا ضروری ہے، ہم اب بھی کم بیک کرسکتے ہیں،

جب تک ختم نہیں ہوتا ہمت نہیں ہاریں گے۔ اسسٹنٹ کوچ کا کہنا تھا کہ غلط وقت پرغلط شاٹ کھیلا گیا جس کی وجہ سے میچ ہاتھ سے نکلا، کسی کھلاڑی کو اپنی صلاحیت پر ہی شک ہو جائے تو بہت مشکل ہوتا ہے،

اگر ہم خود پر اعتماد رکھ کر کھیلیں تو سب کو غلط ثابت کرنا ہوگا، ان کا کہنا تھا کہ اسٹرائیک ریٹ پر سارا نزلہ بابر اور رضوان پر آجاتا ہے، اگر اچھی پارٹنرشپ نہ ہو سکے تو پھر دباؤ میں آجاتے ہیں،

اگر ہم ٹھیک وقت پر ٹھیک فیصلے لیں تو چیزیں آسان ہوں گی، کینیڈا کے خلاف میچ ہمارے لیے اہم ہے، کرکٹ میں اگر مگر تو ہوتا رہتا ہے، پہلے بھی ہوتا رہا ہے،

نسیم شاہ اور شاہین آفریدی سے بیٹنگ کی توقع نہیں رکھ سکتے، یہ کام شروع کے 7 بیٹرز کا ہے، اگر ٹاپ آرڈر نہیں پرفارم کرے گا تو باقی لوگوں سے کیا توقع کریں۔

اظہر محمود کا کہنا تھا کہ میچ ہار جائیں تو کیا کھلاڑی کی زندگی ختم ہوجاتی ہے؟ دیوار پر سر ماریں ؟ ہار جاتے ہیں تو سب کہتے یہ چیز نہیں کر رہے وہ نہیں کر رہے، اب کسی خوش فہمی میں رہنے کی گنجائش نہیں ہے،

کوئی کسی حریف کو آسان سمجھتا ہے تو اس کی انٹرنیشنل کرکٹ میں جگہ نہیں، کینیڈا کے پاس بھی ایسے پلیئرز ہیں جو اچھا کر سکتے ہیں، ہمیں اب یہ میچ ہر حال میں جیتنا ہوگا، فزیکل پریکٹس سے کچھ نہیں ہوتا، اس وقت ذہنی پختگی بہت اہم ہے۔

error: Content is protected !!