اٹھارھویں ترمیم کے بعد پی ایس بی کی صوبے میں قانونی حقیقت

اٹھارھویں ترمیم کے بعد پی ایس بی کی صوبے میں قانونی حقیقت

وزیراعلی و مشیر کھیل خیبر پختونخواہ خزانے پر بوجھ وفاقی ادارے کے بارے میں وفاق سے بات کریں ، حلقے

کھیلوں سے وابستہ حلقوں نے وفاقی ادارے پی ایس بی پشاور سنٹر کی جانب سے والی بال کے کھلاڑیوں پر پابندی لگانے کے اقدام کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے

کہا ہے کہ یہ اقدام پی ایس بی کی کھیل دشمنی کے مترادف ہے اور جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ، کھیلوں سے وابستہ حلقوں کے مطابق اٹھارھویں ترمیم کے بعد پی ایس بی کی صوبے میں کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں ہے

لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ وفاق کی طرف بڑھکیں مارنے والے وزیراعلی اس معاملے پر خاموش ہیں ایک طرف صوبے کے والی بال کے کھلاڑیوں پر کھیلوں کے دروازے بند کئے گئے

اس معاملے میں وزیراعلی خیبر پختونخواہ اور مشیر کھیل کو خود اٹھ کر بات کرنی چاہئیے کہ جب اٹھارھویں ترمیم کے بعد صوبے کے پاس اختیارات آگئے ہیں تو اس ڈیپارٹمنٹ کے صوبے میں حیثیت کیا ہے،

یہاں پر تعینات ملازمین بھی وفاق پر بوجھ ہیں جو تنخواہیں تو کھیلوں کے فروغ کے لیتے ہیں مگر کھیل دشمنی کے اقدامات اٹھاتے ہیں ان کے مطابق پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹر پشاور کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے

کہ یہاں پر کوئی ڈائریکٹر بھی تعینات نہیں ، متعدد بیرے ، چوکیدار، کلرک اور ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ رکھے گئے ہیں جو تنخواہیں تو لیتے ہیں مگران کی کوئی کارکردگی نہیں ،

جبکہ جمنازیم ہال متعدد مرتبہ پرائیویٹ سکولوں کو کرایہ پر تقریبات کیلئے دئیے جاتے رہے ہیں اوریہ ایک روایت بنتی جارہی ہیں مگر اس طرف کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں.

واضح رہے کہ کم و بیش ڈیڑھ ماہ قبل یہاں پر کمرے سے ایل سی ڈی بھی غائب ہوگئی جس پر خاموشی چھا گئی اسی طرح پندرہ فوم ہاسٹل سے غائب کرنے کے سلسلے میں انکوائریاں بھی چل رہی ہیں

مگر "پشاور کے کارخانو مارکیٹ” سے پہنچنے والے تحفوں اور "نمک منڈی” کے خوراک میں انکوائریاں کرنے والوں کی آنکھیں بھی بند ہو جاتی ہیں

error: Content is protected !!