گروپ بندی، سیاست، نفاق، دکھاوا؛ پاکستانی کرکٹ کا آوے کا آوا خراب ہے
تحریر ; حسنین جمیل
وائٹ بال کپتان بابر اعظم نے بھی حالات سے کچھ نہیں سیکھا۔ وہ بھی میرٹ کی بحائے دوستوں کو نوازنے پر تلا ہوا ہے۔ غیر اعلانیہ چیف سلیکٹر اور ٹیم کے مدارالمنام وہاب ریاض سے سخت باز پرس کی ضرورت ہے جو ہو نہیں سکتی کیونکہ وہ چیئرمین محسن نقوی کا دوست ہے۔
بالآخر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ پاکستان کی بہت بڑی ناکامی کے بعد ختم ہوا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان کو آئی سی سی کے کسی ایونٹ میں اتنی بڑی ناکامی ملی ہے کہ پہلے راؤنڈ سے ہی گھر واپسی ہوئی ہے۔
اس سے پہلے 2003 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں وقار یونس کی کپتانی میں اور 2007 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں انضمام الحق کی کپتانی میں پاکستان پہلے راؤنڈ سے باہر ہو گیا تھا۔ تاہم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں پہلی بار بابر اعظم کی کپتانی میں ہم پہلے راؤنڈ سے باہر ہو گئے ہیں۔
بابر اعظم کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم 3 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، 2 ایشیا کپ اور ایک ون ڈے ورلڈ کپ ہار چکی ہے۔ ان میں سے صرف 2022 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں فائنل تک رسائی ہوئی تھی جو ہم برطانیہ سے ہار گئے تھے۔
حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد ہیڈ کوچ گیری گرسٹن نے چشم کشا انکشافات کیے ہیں جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیم میں اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے، سب اپنے لیے کھیلتے ہیں۔ فٹنس لیول بہت خراب ہے۔ کوئی کھلاڑی ایک دوسرے کو سپورٹ نہیں کرتا۔ کسی کو نہیں پتہ کہ کون سی شاٹ کس وقت کھیلنی ہے۔ ٹیم میں گروپ بازی ہے۔
گیری کرسٹن نے جو انکشافات کیے ہیں ان کے بارے میں میڈیا پر تواتر سے خبریں آ رہی تھیں مگر قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ نے باضابطہ طور پر اس کی تصدیق کر دی ہے۔ یہ وہ سچ ہے جو صرف غیر ملکی کوچ ہی بول سکتا تھا۔
کوئی بھی پاکستانی کوچ کبھی یہ سچ بولنے کی کوشش نہ کرتا کیونکہ بدقسمتی سے منافقت ہمارے سماج کا لازمی جزو ہے۔ جب منافقت ہر طبقہ میں سرایت کر چکی ہو تو کرکٹ ٹیم اس سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟
ہم نے اور ہماری قومی ٹیم نے مذہب کا جو لبادہ اوڑھ رکھا ہے وہ جھوٹا ہے۔ میدان میں ایک ساتھ با جماعت نماز پڑھنا، اکٹھے عمرے پر جانا اور یک زبان ہو کر نعت پڑھنے کی ویڈیو جاری کرنا؛
یہ سب جھوٹ اور منافقت کی انتہا ہے۔ ایک طرف با جماعت نماز پڑھنے اور نعت خوانی کی ویڈیو جاری کرتے ہیں اور دوسری طرف ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں۔ ایک کہاوت کے مطابق بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کرتے ہیں۔
ٹیم میں پروفیشنل ازم نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہ کھلاڑیوں کی بحائے تبلیغی جماعت کا ٹولہ لگتا ہے۔ سوال کرکٹ کا پوچھو، آگے سے تبلیغی بن جاتے ہیں۔
منبر پر بیٹھ کر واعظ کرنے کی ویڈیو حتیٰ کہ محمد رضوان دوران میچ پانی کے وقفے میں نماز پڑھنے لگ جاتا ہے۔ پتہ نہیں ان کو مذہب کی روح تک کا بھی پتہ ہے یا نہیں۔ اتنے مذہبی بننے کا ناٹک کرنے کے باوجود ٹیم سپرٹ نہیں ہے اور ایک دوسرے کی ناکامی کے خواہاں ہیں۔
اوپر سے سسر گروپ کا اثر کہ شاہد آفریدی اپنے داماد شاہین شاہ آفریدی کو اور ثقلین مشتاق اپنے داماد شاداب خان کو سپورٹ کر کے ٹیم میں گروپ بازی کر رہے ہیں۔
شاہین شاہ آفریدی ایک باصلاحیت کھلاڑی اور اچھا انسان ہے مگر شاہد آفریدی جیسے موقع پرست اور اوسط درجہ کے کرکٹر کے پیچھے لگ کر اپنی ساکھ خراب کر رہا ہے۔ وائٹ بال کپتان بابر اعظم نے بھی حالات سے کچھ نہیں سیکھا۔
وہ بھی میرٹ کی بحائے دوستوں کو نوازنے پر تلا ہوا ہے۔ غیر اعلانیہ چیف سلیکٹر اور ٹیم کے مدارالمنام وہاب ریاض سے سخت باز پرس کی ضرورت ہے جو ہو نہیں سکتی کیونکہ وہ چیئرمین محسن نقوی کا دوست ہے۔
لہٰذا جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو وہاں کچھ ٹھیک ہونے کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم نے آخری آئی سی سی ایونٹ سرفراز احمد کی قیادت میں 2017 میں جیتا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک ہم خالی ہاتھ ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ریڈ بال کپتان شان مسعود بنگلہ دیش اور برطانیہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں بابر اعظم والی غلطیوں سے سبق حاصل کریں گے یا نہیں۔ (بشکریہ نیا دور)