پی سی بی کا کیا رونا، کھیلوں کی ہر فیڈریشن پر ریٹائرڈ لوگ قابض ہیں ؛ رانا ثناء اللہ

ہمیں بطور قوم اپنے رویوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے
کیا وجہ ہے کہ بابر اعظم جیسے کھلاڑی کو بھی اپنے شہر سے کھیلنے کا موقع نہیں ملا

مشیر وزیر اعظم رانا ثناء اللہ خان

کھلیوں کے صحافیوں کے عالمی دن کے موقع پر راولپنڈی اسلام سپورٹس جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے پر وقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا زیادہ تر وقت لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں گزرا ہے اس بار مجھے مختلف ذمہ داری دی گئی ہے بین الصوبائی رابطے کی وزارت مجھے دی گئی ہے

پروقار تقریب سے چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام رانا مشہود ، مشیر وزیر اعظم رانا ثناء اللہ خان ،صدر رسجا سید محسن علی, ڈاکٹر خلیل احمد پروگرام مینجر سپارک، عامر نواز سیکٹری پاکستان سکواش فیڈریشن, جنید شفقت،

جی ایم مارکیٹنگ سرینہ ہوٹل ,کرنل ضیاء سیکٹری ٹینس فیڈریشن , شکیل شیخ سابق ممبر بورڈ آف گورنرز پاکستان کرکٹ بورڈ, حامد میر سینیئر صحافی,آئی جی اسلام آباد نے خطاب کیا۔

مشیر وزیر اعظم رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ میں نے پہلے دن جب مجھے بریفنگ دی گئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ اس شعبے میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے عموماً سمجھا جاتا ہے یہ وزارت کسی کام کی نہیں کرکٹ کے علاؤہ دیگر ایسوسیشنز میں بھی حالات بہت خراب ہیں ہر جگہ بہت زیادہ سیاست ہے

وزارتِ بین الصوبائی رابطہ کے مشیر رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا کیا رونا کھیلوں کی ہر فیڈریشن پر ریٹائرڈ لوگ قابض ہیں۔

رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ بدقسمتی ہے کہ 25 کروڑ کی آبادی میں اولمپکس کیلئے صرف 3 یا 4 ایتھلیٹ کوالیفائی کر پائے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ سپورٹس فیڈریشنز کی کارکردگی جانچنے کیلئے ہدف طے کر دیے ہیں۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ عالمی مقابلوں میں پلیئرز کا میڈل جیتنا دور کی بات کم از کم فیڈریشنز کھلاڑیوں کو کوالیفائی تو کروائیں ورنہ عہدہ چھوڑ دیں۔

ہمیں بطور قوم اپنے رویوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کیا وجہ ہے کہ بابر اعظم جیسے کھلاڑی کو بھی اپنے شہر سے کھیلنے کا موقع نہیں ملا

جب میرے ہاتھ میں طاقت آتی ہے تو میں استعمال کرتا ہوں جب کسی اور کے ہاتھ میں طاقت آتی ہے وہ بھی اس کا استعمال کرتا ہے یہ چیز ہمیں آگے بڑھنے سے روکتی ہے

لوگ جب طاقت میں ہوتے ہیں تو ان کے بھڑکانے والے ارد گرد موجود ہوتے ہیں اپنے رویوں پر ہمیں اپنا احتساب کرنا ہوگا میرا زیادہ تر وقت لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں گزرا ہے اس بار مجھے مختلف ذمہ داری دی گئی ہے

بین الصوبائی رابطے کی وزارت مجھے دی گئی ہے میں نے پہلے دن جب مجھے بریفنگ دی گئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ اس شعبے میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے عموماً سمجھا جاتا ہے یہ وزارت کسی کام کی نہیں

کرکٹ کے علاؤہ دیگر ایسوسیشنز میں بھی حالات بہت خراب ہیں ہر جگہ بہت زیادہ سیاست ہے اولمپکس میں دنیا بھر سے سینکڑوں کھلاڑی مختلف ممالک سے شرکت کے لیے پہنچتے ہیں افسوس کا مقام ہے پاکستان سے چند کھلاڑی ہی اولمپکس تک پہنچتے ہیں

ندیم ارشد بھی اپنی ذاتی کاوش سے اولیمپکس تکا پہنچا مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے کھلاڑی وہاں تک کوالیفائی ہی نہیں کر پاتے یہ فیڈریشن کی زمہ داری ہے

جو اپنے کھلاڑی کو کوالیفائی نہیں کروا سکتی اس کا کوئی مقصد نہیں ہےعربوں روپے کا فنڈ ہے لیکن کام کوئی نہیں کر رہے

سپورٹس جرنلسٹس کا کام صرف میچز کو کوور کرنا نہیں ہے کھیلوں کے صحافیوں کا اصل کام فیڈریشنز کی کاکردگی پر نظر رکھنا ہے کس فیڈریشن میں کون کب سے بیٹھا ہے؟؟

اس کی کیا کارکردگی ہے اس سب پر سپورٹس جرنلسٹس نظر رکھیں یہ سب اپنی مراعات لے رہے ہیں لیکن کام دھیلے کا نہیں کر رہے پاکستان کی آبادی 25 کڑوڑ ہے اور صرف 4 کھلاڑیوں نے اولیمپکس کے لیے کوالیفائی کیا

error: Content is protected !!