پی او اے چیف کو نرم سزا پر عوامی غم و غصہ، صرف پابندی سے کام نہیں چلے گا
مسرت اللہ جان
اسلام آباد: انسانی سمگلنگ کے الزامات کے بعد پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن (POA) کے سیکرٹری جنرل کو کھیلوں سے متعلق کسی بھی عہدے پر فائز رہنے پر پابندی لگانے کے حالیہ فیصلے نے کھیلوں سے وابستہ حلقوں کو حیران کردیا ہے ، انسانی سمگلنگ کے الزامات میں صرف پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کے عہدے سے ہٹانا اوران پر کسی بھی کھیلوں کے مقابلوں میں پابندی کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ سزا جرم کی شدت سے غیر متناسب ہے اور انصاف اور مساوات کے اصولوں کو مجروح کرتی ہے۔
پاکستان میں انسانی سمگلنگ کی سزا چودہ سال قید ہے ، لیکن پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کے معاملے میں بین الصوبائی رابطہ کونسل کی جانب سے دی جانیوالی سزا یعنی پابندی ایک کھلا مذا ق ہے. جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو بین الصوبائی رابطہ کونسل کے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں تھا ۔جس پر سیکرٹری پی او اے کے خلاف کاروائی کی جاتی ، یا پھر جان بوجھ کر ایسی سزا سنائی گئی کہ وہ مستقبل میں اس سزا کے خلاف عدالت کا رخ بھی کرسکتا ہے.۔
پاکستان میں انسانی سمگلنگ میں ملوث عام افراد کو کیسے سزا ملتی ہے ، اوراب تک کتنوں کو سزا ملی ہے لیکن کھیلوں کے شعبے میں انسانی سمگلنگ ایک بڑھتا ہوا کاروبار ہے اور اس حمام میں کھلاڑی ، ایسوسی ایشن ، حکومتی ادارے سب ہی ملوث ہیں اور یہ عمل خیبر پختونخواہ میں بھی عرصہ دراز سے جاری و ساری ہے
لیکن پاکستان میں کھیلوں کی سطح پر وفاقی ادارے کی انسانی سمگلنگ کی بھیانک الزامات اب تک صرف الزامات ہی ہیں ، کیونکہ نہ تو یہ بتایا گیا کہ انہوں کے کتنے افراد کو باہر بھجوایا ، اور یہ سلسلہ کب سے جاری تھا ، اسی طرح کھیلوں کے شعبے میں انسانی سمگلنگ کرنے والے پی او اے کے سیکرٹری کے پاس کتنے دیگر ادارے اور لوگ ملوث ہیں اور ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی اور کیا کی جارہی ہیں.
اگرپی او اے کے سیکرٹری کے خلاف کاروائی کارکردگی نہ دکھانے پر کی جارہی تو اس عمل میں تمام کھیلوں کی فیڈریشن بشمول پاکستان سپورٹس بورڈ اینڈ کوچنگ سنٹرجو وفاقی ادارہ ہے بھی شامل ہیں ان کے خلاف کیا کارروائی کی جارہی ہیں ، یہ سب سے بڑا سوال ہے
اس کیس نے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ پر ایک طویل سایہ ڈالا ہے۔ ایک ایسا ملک جو عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے اب ایک ایسے ہائی پروفائل اسکینڈل سے دوچار ہے جس میں اس طرح کے گھناو¿نے جرم کا الزام ایک ممتاز اسپورٹس عہدیدار شامل ہے۔اس واقعے سے بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور یہ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور سیاحوں کوپاکستان میں آنے سے بھی روک سکتا ہے.
مزید برآں، ملزمان کے ساتھ دکھائی گئی نرمی نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں میں انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے عزم کے بارے میں تشویش کو جنم دیا ہے۔ اس کیس نے اس اہم مسئلے سے نمٹنے کے لیے ملک کو اپنے قانونی ڈھانچے اور نفاذ کے طریقہ کار کو مضبوط بنانے کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ چونکہ پاکستانی قوم اس وقت مختلف بحرانوں کا شکار ہے،
یہ ضروری ہے کہ حکومت عوام کے اعتماد کو بحال کرنے اور پاکستان کی ساکھ کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن اقدام کرے۔ اس معاملے کی مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ضروری ہے،
اور ملزمان کو ان کے مبینہ اعمال کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔ اس اسکینڈل کے دور رس نتائج اور قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ جو بھی کھیلوں کے شعبے کو تباہ و برباد کرنے اور انسانی سمگلنگ میں ملوث ہو انہیں نشانہ عبرت بنایا جائے تاکہ مستقبل میں کسی کو اس طرح کرنے کی ہمت نہ ہوں.