ضم اضلاع کے انٹر اکیڈمی ، انتظامی ناکامیوں کی حقیقت بے نقاب
مسرت اللہ جان
خیبرپختونخواہ کیساتھ ضم کئے جانیوالے قبائلی علاقہ جات جنہیں اب ضم اضلاع کہا جاتاہے کے نوجوانوں کے انٹر اکیڈمی مقابلوں کی افتتاحی تقریب حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں منعقد ہوئی،
یہ مقابلے دوسال قبل ہونے تھے اوراس میں پانچ مختلف کھیلوں کے مقابلے منعقد کئے جانے تھے لیکن دو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد گذشتہ روز ان کھیلوںکا باقاعدہ آغازکردیا گیا
پانچ دن تک جار ی رہنے والے ان ان مقابلوں کا باقاعدہ آغاز وزیراعلی خیبرپختونخواہ نے کیا ، جس میں نہ صرف مشیر کھیل خیبر پختونخواہ بلکہ دیگر وزارتوں کے وزراءسمیت صوبائی وزارت کھیل کے اعلی حکام بھی شریک ہوئے.
اور وزیراعلی خیبرپختونخواہ علی امین گنڈا پور نے باقاعدہ کھیلوں کے مقابلوں کا آغاز کیا ، یہ مقابلے اب اٹھارہ اگست تک جاری رہیں گے.
ضم اضلاع کے ان تین کھیلوں کے شروع کرنے کا سہرا بلاشبہ موجودہ ڈائریکٹر ضم اضلاع سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو جاتاہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں.
ضم اضلاع کی کھیلوں کی وزارت گذشتہ دو سالوں سے فٹ بال بنی ہوئی ہیں جس طرح انضمام توہوا لیکن اس کے ثمرات ضم اضلاع کے لوگوں کونہیں مل سکے تقریبا یہی صورتحال صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ و ضم اضلاع سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بھی ہیں ،
کچھ عرصہ قبل اس ڈائریکٹریٹ پر مسلط کئے جانیوالے "وڈے افسر” نے ضم اضلاع کو اپنے ماتحت کرنے کی بھرپور کوششیں کی اوراس سلسلے میں کی جانیوالی کاوشیںسپورٹس ڈائریکٹریٹ سے وابستہ افراد کوپتہ ہے
حالانکہ سیکرٹری سپورٹس کے دفتر سے ضم اضلاع کیلئے الگ سرکلر جاری ہوتا تھا لیکن طاقت ، کرسی اورپیسہ کاوہ نشہ ہی کیا جونہ بولے جس کی وجہ سے ایسے اقدامات اٹھائے گئے جو ماضی میں قبل نہیں اٹھائے گئے ،
جس کا خمیازہ آج نہ صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ بلکہ ضم اضلاع کے سپورٹس کی ڈیپارٹمنٹ بھی بھگت رہی ہیں ، یہ نہیں کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں فرشتے بیٹھے ہیں یا دوسری طرف بیٹھے بڑے نیک لوگ ہیں لیکن دونوں طرف سے آگ برابر لگی ہوئی ہیں اسی ہوئی اسی دوڑ نے ایک دوسرے کا حق مارنے کی بھرپورکوششوں کا سلسلہ جاری و ساری ہے.
خیر اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں آج تک کسی نے بھی ضم اضلاع کے ڈائریکٹریٹ اور کھلاڑیوںکو ان کے حقوق نہیں دئیے نہ ہی اس ادارے سے وابستہ افراد کی استعداد کار بڑھانے کی کوشش کی ،
جس کا پتہ گذشتہ روز کئے جانیوالے ضم اضلاع کے انٹر اکیڈمی مقابلوں کی افتتاحی تقریب سے ہوا ، جس کیلئے ڈائریکٹریٹ سے مینجمنٹ کی ٹیم لی گئی ایسی ٹیم جویقینااپنے شعبے میں ماہرہے لیکن ماہرین بھی اپنے "دم چھلوں” سے مجبورہیں اس لئے ایسے میڈیاکوارڈینیٹربھی رکھے گئے
جنہیں یہ کہہ کرمشہورکروایا گیا کہ وہ صحافتی امور سمجھتے ہیں حالانکہ نہ انہیں صحافت کا پتہ اور نہ ہی کسی اور چیز کا ، البتہ لگائی بجھائی کا کام بہتر طریقے سے انجام دیتے ہیں ،
خیرنہ انہوں نے میڈیا کو آگاہ کیا اگر کوئی آگیا تو ٹھیک ورنہ بھاڑ میں سب جائے- کھیلوں کی افتتاحی تقریب کیلئے انتظامات بہترین کرنے کی کوشش کی گئی
لیکن نہ جانے کن لوگوں نے ذمہ داران کے کانوں میں یہ بات پہنچائی ہے کہ اگر نوجوانوں کے سامنے گلوکارہ یا گلوکار لہرا ئے تو پروگرام کامیاب ہوتا ہے اسی بناءپر افتتاحی تقریب میں لاہور سے خصوصی طور پر پرفارمنس کرنے کیلئے گلوکار بلوائے گئے ،
اللہ تعالی غریق رحمت کرے ، جنید جمشید کو ان کے گانے کے ساتھ جو سلوک ان گلوکار وگلوکاراﺅں نے کیا ، ان کی روح بھی قبر تڑپتی ہوگی – اب اس پرفارمنس پرانہیں ضم اضلاع کے سپورٹس کے فنڈز میں بھاری بھر رقم دی جائیگی .
حالانکہ اگر یہ رقم کھیلوں کے فروغ کیلئے کام کرنے والے ادارے کی جانب سے کھلاڑیوں کو ٹی اے ڈی اے میں مل جاتی تو اس سے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہوئی –
مزے اورحیرانگی کی بات تویہ ہے کہ ان کھیلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو چودہ اگست سے اٹھارہ اگست تک ڈی اے کی رقم جوکے پانچ دن بنتی ہیں کے بجائے چار دن کا ڈی اے دے دیا گیا
جبکہ بیشترٹیمیں تیرہ اگست کوپہنچی تھی اور منظورکئے جانیوالے پی سی ون کے مطابق کھلاڑیوں کو ایک دن قبل کا ڈی اے دیا جاتا ہے اور ایک دن بعد یعنی سات دن کا ڈی اے ملنا ہوتا ہے
لیکن چار دن کا ڈی اے دیکر کھلاڑیوں کویہ کہا گیا کہ انہیں بعد میں ایک دن ڈی اے دیا جائیگاجبکہ اب بعض ماہرین یہ فرمارہے ہیں کہ چونکہ بعض کھلاڑی اورٹیمیں مقابلے ہارکرچلی جاتی ہیں اس لئے انہیں چار دن کا ڈی اے بھی ملنا بھی ٹھیک ہے.
ضم اضلاع کے کھیلوں کی افتتاحی تقریب کیلئے شوبز سے وابستہ شخصیت کو بلایا گیا تھا جو مائیک پر آرکسٹرا سمیت کھلاڑیوں سے یوں خطاب کررہے تھے جیسے یہ کوئی پروگرام ہو
اوراس پروگرام کے پروڈیوسر ہوں.اورکھلاڑی اس پروگرام حصہ لینے والے ڈمی افراد ، سٹیج پر کھلاڑیوں کویہ کہہ کر اٹھا نا کہ ریہرسل ہوگی اوراپ اٹھ کھڑے ہوں اورآپ بیٹھ جائیں
،اورجب گرمی بھی پشکال کی ہواور آخری دن ہو اورکھلاڑیوں سے اٹھک بیٹھک کرائی جاتی رہی ہو اوردو بجے کھلاڑیوں کو بلایا گیا اورشام سات بجے تک ان سے یہی اٹھک بیٹھک کی جاتی رہی توپھرکھلاڑیوں کا کیا حال ہوگا
اس کا اندازہ افتتاحی تقریب میں کھڑے کھلاڑیوں سے بیٹھنے کے انداز سے ہوا ، اینکر غصے بھرے انداز میں کھلاڑی کو ڈانتا رہا کہ کھڑے ہوجاﺅ ، حالانکہ وہ خود فریش ہو کرائیر کنڈیشنڈ والی گاڑی میں بیٹھ کرواسکٹ پہن کر آیا تھا
اورسب کو اسی طرح سمجھ رہا تھا حالانکہ ان کھلاڑیوں کا بیڑہ گرمی نے اور سات بجے شروع کی جانوالی تقریب کیلئے دوبجے آمد نے خراب کیا تھا اب کھلاڑیوں کی مد میں آنیوالی رقم بھی ڈرم بجانے والے اورانہیں احکامات دینے والوںکومل جائیگی اوراسے بہترین پروگرام قرار دیا جائیگا ،
حالانکہ ٹی وی کے پروگرام اور کھلاڑیوں کی تقریب میں فرق ہوتا ہے جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے . بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ پی ٹی وی کے سابق پروڈیوسر عالم زیب مجاہد کوغریق رحمت کرے-
کھیلوں کے اس افتتاحی تقریب میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں میں بعض کو شوز نہیں ملے ، بعض کو اپر نہیں ملا اوربعض ایسے تھے کہ ایک ہی ضلم سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی مختلف قسم کی کٹس پہن کر آئے تھے
جس سے اندازہ ہوا کہ کٹس اورشوز کم تھے، ان مقابلوں کیلئے ساڑھے تین کروڑ روپے کا سامان آیا تھا اور بعد میں یہ کہا گیا کہ کچھ صاحبان اپنی گاڑیاں بھر بھر کردوستوں میں بانٹتے رہے جس میں اسی ڈائریکٹریٹ کے کچھ افسران ان کے ساتھی تھے جن کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئی لیکن یہ کہہ کر” معاملہ دبایا گیا
کہ مڑا پاکستان دے” ، جس کا اثر یہی ہوا کہ اس افتتاحی تقریب میں کھلاڑی رنگ برنگے نظر آئے ، کوئی چپلیاں پہن کر آیا اور کوئی الگ قسم کا شرٹ اور بغیر اپر کے نظر آیا.
ہمارے ہاں نقالی کی بھی کوشش کی جاتی ہیں ، پنجاب کے مقابلے خیبرپختونخواہ کی حیثیت کیا ہے ، سیاست کی بات اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ صوبہ گندم سے لیکر کھیلوں کے سامان تک دوسرے صوبے تک خواستگار ہے
ایسے میں تقریریں تویقینی اچھی ہوتی ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ پنجاب کی پہچان خیبرپختونخواہ سے ہے اور اسی طرح دیگر صوبے بھی پاکستان کے گلدستے کے خوبصورت پھول ہیں ،
سٹیج پر سیاستدانوں کو للکار کر او ر کھلاڑیوں کو اپنے شعبے میں لانے کیلئے اعلانات کرنے والے اپنے کھلاڑیوں کی حالت زار کا پتہ کرلے توانہیں اندازہ ہوگا کہ اس صوبے کے کھلاڑیوں کو ایک ماہ قبل ساﺅتھ ایشین گیمز میں ٹرائلزکیلئے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے فنڈز تک نہیں دئیے ،
اور کھلاڑیوں کو ان کے کوچ نے پچاس ہزارروپے کی رقم اپنے جیب سے ادا کرکے دیدی ، جو تاحال اس کوچ کی بقایا ہے ، سٹیج سے یہ ا علان کرنا کہ ایک کھلاڑی ساﺅتھ ایشین گیمزکیلئے منتخب ہوا ہے غلط ہے
کیونکہ چار کھلاڑی منتخب ہوئے ہیں اورانہیں منتخب کرانے میں ان کے کوچ کا بڑاکردارہے ، ایسے میں صرف نمبر بنانے کی خاطر ارشد ندیم کو لانے کیلئے بڑھکیں مارنا غلط ہے
کیونکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ارشد ندیم کوچ ہے یا کھلاڑی ، اور اگراس کے کوچ کو ابھی بلایا جانا ہے توپھر انہیں منتخب کرانے کیلئے محنت کرنے والے کوچ کی کیا اوقات ہے.
جس نے اپنے جیب سے رقم کھلاڑیوں کے ٹرائلز پر خرچ کی اور تاحال ڈائریکٹریٹ انہیں دینے سے انکاری ہے .ویسے آپس کی بات ہے کہ جو ڈائریکٹریٹ اپنے دس کھلاڑیوں کوجو ٹرائلزکیلئے جارہے تھے اخراجات کیلئے رقم نہیں دے سکتی
وہ ارشد ندیم کے کوچ کوکیا دے گی . کہنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ ٹوٹے جیولن پر خیبرپختونخواہ کے جس کھلاڑی نے باون میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا اسی کھلاڑی کو جب ٹرائلزمیں سٹینڈرڈ جیولن مل گیا
تو پھر اسی کھلاڑی نے میدان میںاٹھاون میٹر کا فاصلہ طے کیا ، سٹیج پر سیاست کرنے والوںکو کم از کم کھیلوں کی زمینی حقائق کا پتہ ہونا چاہئیے.
ضم اضلاع کے کھیلوں کی باتیں کہیں اورنکل گئی ، یہ مقابلے اٹھارہ تک جاری رہیں گے اوراس میں مزید کیا ہوگا وہ توآ گے آپ کو پڑھنے کوملتارہے گا لیکن کھلاڑی خواہ صوبے کے ہوں یا ضم اضلاع ،
انہیںڈی گریڈکرکے اگرکوئی سمجھتا ہے کہ ان لوگوں نے بڑا تیر مارا لیا تویہ ان بھول ہے کیونکہ جہاں میدان ان کی دم سے آباد ہیںوہاں پریہ وزارتیں بھی ان کی دم سے چلتی ہیں اگریہ کھلاڑی نہ ہوں توبہت سارے اف سراپنے آبائی کاموں کی طرف چلے جائیں گے