پاکستان میں کھیلوں کے فنڈز کی خردبرد اور سپورٹس کی گرتی ہوئی صورتحال
پولینڈ ; تحریر طاہر علی شاہ
جب کسی خزانے یا فنڈ کا بے دریغ استعمال کیا جائے گا تو وہ ناگزیر طور پر ختم ہو جائے گا۔ یہی حال ہمارے ملک میں کھیلوں کے فروغ کے لیے مختص فنڈز کا ہے۔
پاکستان میں کھیلوں کی ترقی کے لیے کوئی مؤثر اور فعال میکانزم موجود نہیں ہے۔ یہاں کھیلوں کی نرسریاں یا تربیتی مراکز نہ ہونے کے برابر ہیں، جہاں سے باصلاحیت کھلاڑی پروان چڑھ سکیں۔ بدقسمتی سے، ہمارے ملک میں کھیلوں کا میدان سیاست کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔
پاکستان میں کھیلوں کی پستی کی ایک بڑی وجہ ذاتی پسند ناپسند اور جانبداری کا سلسلہ ہے۔ اگر کوئی کھلاڑی کسی دوسرے کلب سے تعلق رکھتا ہے یا اس کا استاد مختلف ہوتا ہے،
تو چاہے وہ کتنا ہی باصلاحیت کیوں نہ ہو، اس کا انتخاب صرف موجودہ عہدے داروں کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔ یہاں فیصلے قومی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات اور ترجیحات کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں،
اور جب تک ہم اجتماعی طور پر قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے نہیں کریں گے، تب تک کھیلوں کی حالت میں بہتری ممکن نہیں۔
میر ظفر اللہ جمالی کے دور حکومت میں ایک سپورٹس پالیسی تیار کی گئی تھی، جو کھیلوں کی ترقی کے لیے ایک اہم قدم تھا، مگر افسوس کہ اس پر کبھی عملدرآمد نہ ہو سکا۔
اس کے بعد سے کھیلوں کی حالت دن بدن بگڑتی گئی۔ تاہم، حالیہ دنوں میں ندیم ارشد کے اولمپک گولڈ میڈل جیتنے سے یہ پیغام ملا ہے کہ اگر صحیح سمت میں کام کیا جائے تو پاکستان کے کھیل اب بھی عالمی سطح پر نمایاں ہو سکتے ہیں۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت کو ایسے افراد پر اعتماد کرنا چاہیے جو واقعی کھیلوں کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں اور اس کی ترقی کے لیے سنجیدہ ہیں۔
اگر حکومت کھیلوں کے فروغ کے لیے موزوں اور اہل افراد کو ذمہ داریاں سونپے تو پاکستان دوبارہ بین الاقوامی سطح پر اپنی کھوئی ہوئی عزت و مقام کو بحال کر سکتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات پر نظرثانی کریں اور کھیلوں کے فروغ کے لیے حقیقی اقدامات کریں۔ ورنہ، ہمارا ملک بین الاقوامی کھیلوں کے میدان میں مزید تنزلی کا شکار ہوتا رہے گا۔
ندیم ارشد کا گولڈ میڈل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے پاس صلاحیتیں موجود ہیں، صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان صلاحیتوں کو درست سمت میں استعمال کریں اور پاکستان کو کھیلوں کے میدان میں اس کا کھویا ہوا مقام دوبارہ دلائیں۔