خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے معطل منصوبے صوبائی اسمبلی کی گرفت میں
مسرت اللہ جان
خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی جانب سے کئی منصوبے، جن میں کھیلوں کے کمپلیکس کی تعمیر شامل تھی، ڈی نوٹیفائی کیے جانے کے معاملے پر طویل خاموشی آخرکار صوبائی اسمبلی تک پہنچ گئی ہے۔
رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) قانون کے تحت معلومات فراہم کرنے سے انکار کے باوجود، یہ مسئلہ اسمبلی کے ایوان میں اٹھایا گیا ہے، جس سے کھیلوں کے شائقین میں یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ شاید اب ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہو۔
سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کچھ عرصہ قبل چوہا گجر، بٹگرام، اور شانگلہ جیسے علاقوں میں کھیلوں کے کمپلیکس کی تعمیر کے لیے سیکشن 4 کا نفاذ کیا تھا۔
تاہم، ایک مخصوص دور حکومت میں چوہا گجر اور شانگلہ کے منصوبے ڈی نوٹیفائی کر دیے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بٹگرام سپورٹس کمپلیکس کے لیے کروڑوں روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی تھی،
اور کام کا آغاز بھی ہونے والا تھا۔ باوجود اس کے کہ عدالت نے ڈائریکٹریٹ کے حق میں فیصلے دیے، مگر پس پردہ کہانی تبدیل ہو گئی اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے راتوں رات اپنے ہی منصوبے سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کر لیا۔
پیچھے ہٹنے والے کون تھے اور اس فیصلے کا فائدہ کس کو ہوا، یہ سوالات ابھی تک جواب طلب ہیں، لیکن ڈائریکٹریٹ کو پہنچنے والے نقصان کے اثرات بتدریج سامنے آ رہے ہیں۔
ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران، جو ایئرکنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھ کر فنڈز کی کمی کا رونا روتے ہیں، حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا کیونکہ ڈپٹی کمشنر نے ان منصوبوں کے لیے پانچ کروڑ روپے سے زائد کی رقم جاری کی تھی۔
آر ٹی آئی کے تحت فراہم کی جانے والی معلومات میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ بٹگرام سمیت دیگر زمینوں پر قانونی تنازعات کی وجہ سے منصوبے ڈی نوٹیفائی کیے گئے، مگر اصل حقیقت اسمبلی کے آئندہ اجلاسوں میں واضح ہو جائے گی جہاں اس مسئلے کو زیر بحث لایا جائے گا۔
بٹگرام منصوبے پر انکوائری کے حوالے سے مبہم آوازیں بھی سامنے آ رہی ہیں، مگر یہ انکوائریاں کتنی شفاف ہوں گی اور ان کا نتیجہ کیا ہوگا، یہ بھی ایک الگ کہانی ہے۔ ماضی میں خاتون ہراسمنٹ کے کیس کی انکوائری بھی ہوئی تھی،
لیکن وہ بھی کاغذی کارروائیوں کی نذر ہو گئی۔ چوہا گجر اور شانگلہ سپورٹس کمپلیکس کے مقامات کی ڈی نوٹیفیکیشن نے بھی سوالات اٹھا دیے ہیں،
خاص طور پر اس جعلی مراسلے کے بعد جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ان منصوبوں کے لیے مختص رقم صوبائی سپورٹس کمپلیکس میں واپس بھجوائی جا رہی ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ مراسلہ فنانس ڈپارٹمنٹ سے جاری نہیں ہوا تھا۔
یہ سوالات بھی ابھی تک جواب طلب ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جو ان مشکوک فیصلوں کے پیچھے تھے، اور کسی نے یہ پوچھنے کی ہمت کیوں نہیں کی کہ کس کے دور میں یہ زمینیں حاصل کی گئیں اور کس نے ڈیپارٹمنٹ کو دھمکیاں دیں۔
سپورٹس ڈائریکٹریٹ، جو اب ان فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے، اس بات کی علامت بن گئی ہے کہ عوامی فلاح کے منصوبے کیسے اشرافیہ کے مفادات کی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کون کرے گا؟ اور شاید سب سے پریشان کن جواب یہ ہے کہ کوئی بھی نہیں۔