دو پاکستانی ہونہار لڑکے، مہنگا وکیل ، جیسن گلسپی اور میرٹ
تحریر : ناصراسلم راجہ
قاتل نے جرم کے ارتکاب کے بعد وکیل سے رابطہ کیا اور اسے سارا کیس سمجھاتے ہوئے کیس کی فیس بارے پوچھا تو وکیل نے جھٹ سے کہا دس ہزار روپے لوں گا اور کیس کا فیصلہ بھی جلد کروا دوں گا،
قاتل نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور دل ہی دل میں کہنے لگا جس وکیل کی فیس ہی دس ہزار ہو گی وہ میرا کیس کیسے لڑے گا اور مجھے سزا سے کیسے بچا پائے گا ۔
وہ مشورہ کرتے کرتے ایک بڑے وکیل تک پہنچا جس کے منشی نے اس کو بتایا کہ ہمارے وکیل صاحب دس لاکھ فیس لیتے ہیں ، قاتل بہت خوش ہوا اور دل ہی دل میں کہنے لگا یہ ہے صحیح اور منجھا ہوا وکیل ۔
کیس چلا اور قاتل کو سزائے موت ہو گئی، فیصلہ سن کر قاتل جب پولیس کی حراست میں عدالت سے باہر نکلا تو وہی پہلا دس ہزار فیس والاوکیل کھڑا ملا اور کہنے کو لگا جو کام اس وکیل نے دس لاکھ میں کرایا ہے یہی فیصلہ میں دس ہزار میں کروا رہا تھا۔
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے کرکٹ کوچ جیسن گلسپی نے بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کیا ہے وہ پاکستان کرکٹ بورڈ سے کروڑوں روپے بھی لے جائے گا
اور رزلٹ یہ کہ ٹیسٹ کرکٹ کی سب سے کمزور ٹیم بنگلہ دیش سے ہم دس وکٹوں سے ہار گئے یہی کام ہمارا کوئی عام سا کوچ کم پیسوں میں کروا دیتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں کرکٹ کے بڑے بڑے کھلاڑی اور کوچنگ کی صلاحیت رکھنے والے کرکٹر موجود ہیں ، چونکہ ہمارے ملک میں ہیرے کی کانیں ہیں ، معیشت برونائی جیسے ملک سے اوپر ہے،
اس لئے شہنشاہوں والے فیصلے کرتے ہیں ، اور اپنے کوچز کو اہمیت دینے کی بجائے غیر ملکی کوچز کو مہنگے معاوضے پر رکھ لیتے ہیں اور رزلٹ برا ترین ۔
دوسرا ہم نے یہ قسم اٹھا رکھی ہے کہ میرٹ پر فیصلے نہیں کرنے، ٹیم میں وکٹ کیپر رضوان کی موجودگی میں کسی شان یا اعظم کی کپتانی کا کوئی چانس نہیں بنتا اور نہ ہی شاہین شاہ کو کپتان بنانا ایک درست قدم تھا،
اگر ٹیم کو مستقبل کی فاتح ٹیم بنانا ہے تو رضوان کو ٹیم کا کپتان مقرر کریں اور مجھے یقین ہے پھر پوری ٹیم بھی میرٹ پر منتخب ہوگی اور ہم ورلڈ کپ میں امریکہ اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں سے یوں ذلت آمیز شکست سے دو چار نہیں ہونگے۔
پاکستان ، بنگلہ دیش کے پہلے ٹیسٹ کے دوران راولپنڈی اسلام آباد سپورٹس جرنلسٹس ایسوسی ایشن رسجا کی طرف سے بنگلہ دیش سے آئے ہوئے صحافی محمد ایصام اور
کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی سید وزیر قادری کے اعزاز میں تقریب منعقد ہوئی جسمیں انہیں ایوارڈز دییئے گئے اور سیش بھی پہنائی گئیں ۔
رسجا کی یہ روایت بڑی پرانی ہے اس سے پہلے سری لنکا، آسٹریلیا ، کراچی اور پشاور کے سپورٹس جرنلسٹس کو یہ ایوارڈز دیئے گئے اور مجھے آسٹریلین جرنلسٹس کے یہ الفاظ یاد ہیں،
جس میں اس نے کہا تھا کہ ہم ساری دنیا میں کوریج کے لئے جاتے ہیں لیکن ایسی عزت افزائی کہیں نہ ملی،جبکہ ایک آسٹریلین خاتون جرنلسٹ نے دل دل پاکستان گا کر ہمارے دل موہ لئے۔ بطور پاکستانی یہ بڑے اعزاز کی بات سمجھتا ہوں ۔
میں ایک اور اعزاز اور خوشی کی بات شئیر کرنا چاہتا ہوں ۔ہمارے دو رسجا کے سپیشل ممبران وقار احمد خان اور نواز گوہر جو اپنی اپنی سپورٹس ویب سائٹس اور یو ٹیوب چینلز کامیابی سے چلا رہے ہیں
اوراسے اپنے لئے بہترین روزگار بھی بنائے ہوئے ہیں اور اس سے بڑھ کر دو نوجوان علی رضا اور داؤد مغل جن کا کرکٹ یو ٹیوب چینل کروڑوں لوگ دیکھ رہے ہیں بلکہ وہ کوریج کے لئے دنیا بھر میں گھومتے ہیں بلکہ حال ہی میں امریکہ اور ویسٹ انڈیز بھی ہو کر آئے ہیں ۔
یہ بھی خوشی کی بات اس لئے ہے کہ آپ اگر کچھ کرنا چاہیں تو کرنے کو بہت کام ہے شاباش وقار شاباش نواز گوہر اینڈ ویلڈن بوائز آپ سب ہمارے لئے باعث فخر ہیں۔