میراتھن پشاور ریس ، رات کو مقابلوں کا انعقاد ممکن ، ٹرانس پشاور کسی حد تک لاتعلق بنی رہا

میراتھن پشاور ریس ،رات کو مقابلوں کا انعقاد ممکن ، ٹرانس پشاور کسی حد تک لاتعلق بنی رہا

مسرت اللہ جان

خیبرپختونخوا سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے زیرِ اہتمام منعقد کی جانے والی تاریخ کی پہلی میراتھن ریس، جو ٹرانس پشاور کے بی آر ٹی منصوبے پر منعقد ہوئی، نے رات کے وقت کھیلوں کے انعقاد کو حقیقت بنا دیا۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر حکومتی ادارے چاہیں تو رات کے اوقات میں بھی کھیلوں سمیت دیگر سرگرمیاں ممکن ہیں۔ اس میراتھن ریس نے نہ صرف پشاور کے امن کو اجاگر کیا بلکہ اسے ایک پرامن اور کامیاب تقریب کے طور پر سراہا گیا۔

تاہم، تقریب کے دوران چند انتظامی غلطیاں بھی سامنے آئیں، جو پہلی مرتبہ پشاور میں ہونیوالے اس بڑے ایونٹ کے لیے قابل قبول تو ہیں، مگر شہریوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ایسی غلطیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی جانب سے میراتھن ریس کے انعقاد کیلئے پہلی مرتبہ آن لائن رجسٹریشن کا عمل شروع کیا گیا جس میں کم و بیش تین ہزار سے زائد افراد نے رجسٹریشن کی

اس ریس کی خوبصورت بات یہی تھی کہ نہ صرف صوبہ خیبرپختونخوا ہ کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے اتھلیٹ نے اس میں حصہ لیا بلکہ سندھ او ر پنجاب سے تعلق رکھنے والے اتھلیٹ نے بھی

اس میں رجسٹریشن کی تھی جو چھ ستمبر کی شام بی آر ٹی روٹ کے پہلے سٹیشن چمکنی بزنس سنٹر پر شام پانچ بجے سے پہلے پہنچے تھے اپنی نوعیت کے اس پہلے میراتھن ریس میں خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اہلکاروں سمیت پینتیس ڈسٹرکٹس کے بعض ڈی ایس اوز نے بھی شرکت کی

جنہیں اپنے ضلع سے کم و بیش دس اتھلیٹ لانے کی ہدایت کی گئی تھی جس میں بعض اضلاع کے اتھلیٹس تو زیادہ تھے جبکہ بعض اضلاع سے صرف خانہ پری کی گئی

جس سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ ان اضلاع میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز بھی "کھیلوں کی سرگرمیوں کے فروغ کے بجائے صرف بابوصاحب”بن کر ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں

اور ان کے اپنے اضلاع میںاتھلیٹکس جیسے فیلڈ میں کھلاڑی نہ ہونے کے برابر ہیں.۔پشاور جو کسی زمانے میں پھولوں کا شہر تھا ، اب وقت کی تبدیلی کیساتھ "موسیقی کا شہر”بن کر رہ گیا ہے

اس لئے بی آر ٹی بزنس سنٹر میں صوبے کے مختلف اضلاع سے آنیوالے اتھلیٹ کی دلجوئی کیلئے موسیقی اور گانے بھی خوب بجائے گئے ،

اور ڈھول کی تھاپ پر اتھلیٹ نے "وہ ٹھمکے لگائے کہ ان میں بعض اتھلیٹ کے بجائے ڈانسر نظر آئے” اور یقینا وہ اگر اتھلیٹکس میں کامیاب نہیں ہونگے تو ڈانس اور ٹھمکوںکی وجہ سے اپنے لئے مقام حاصل کرسکتے ہیں.

صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی مینجمنٹ نے اپنے حد تک کام مکمل کرنے کی کوشش کی تھی اسی باعث سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کوچز و ملازمین چھ ستمبر کو دو بجے بی آر ٹی کے پچیس کلومیٹر روٹ پر کھڑے نظر آئے ،

اور انہوں نے رجسٹریشن سمیت کھلاڑیوں کو پانی پلانے میں بہت حد تک ہر ممکن مدد کی ،اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ ڈیوٹی کرنے والے ان کوچز کو اس مقصد کیلئے بنائے گئے

خصوصی شرٹس انہیں فراہم کردیتی تو اس سے کم از کم ڈیوٹی کرنے والے کوچز بھی خوش ہوتے اور ریس میں شامل ہونیوالے اتھلیٹ کو بھی پتہ چلتا کہ کوئی ان کی مانیٹرنگ کررہا ہے –

حالانکہ میراتھن پشاور کیلئے بننے والے ٹی شرٹس کی بھاری کھیپ پر مشتمل بوری پشاور صدر سے تعلق رکھنے والے صاحب اپنی طرف لے گئے تھے اور ایک کوچ کے ہاتھ سے یہ شرٹ یہ کہہ کر لے لیا تھا

کہ حیات آباد والے اپنا بندوبست خود کریں ، حالانکہ حیات آباد سپورٹس کمپلیکس اس وقت پورے ڈائریکٹریٹ کو ریونیو کی مد میں بھاری بھر رقم بھی دے رہا ہے لیکن صرف وہاں کے کوچز کیساتھ اس طرح کا رویہ بھی جانبدارانہ اقدام ہے.

پشاور میں اتنے بڑے ایونٹ کے انعقاد میں ٹرانس پشاور کی انتظامیہ نے بھی بعض کمزوریاں دکھائی ، بجلی کے نظام کیلئے کوئی متبادل انتظام نہیں کیا گیا تھا

نہ ہی انہوں نے اپنے فیڈر سے بات کی تھی کہ کم از کم اتنے بڑے ایونٹ کے دوران لوڈشیڈنگ نہ کی جائے اسی وجہ سے پروگرام میں بعض اوقات اندھیرا چھا گیاتھا

اسی طرح مہمان خصوصی وزیراعلی خیبرپختونخواہ اپنے مقررہ وقت سے لیٹ آئے حالانکہ تقریب کے انعقاد کیلئے ساڑھے نو بجے کا وقت دیا گیا تھا

لیکن بے وقت ہونیوالے بارش موسم تو کسی حد تک خوشگوار کردیا لیکن اس بارش کے باعث ریس میں حصہ لینے والے اتھلیٹ کوپانی میں ڈوبنے والے اپنے بھاری ہونیوالے بوٹ کیساتھ بھاگنا بھی مشکل میں ڈال گیا تھا

دوسری طرف بی آر ٹی بزنس سنٹر کے بعض جگہوں پر پانی کھڑا ہونے کے باعث نہ صرف کھلاڑیوں کو بلکہ دیگر افراد کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،

یہ تو شکر تھا کہ بارش چمکنی سے صرف ہشتنگری تک رہی وورنہ پھر میراتھن میں شامل کھلاڑیوں کو بعض بی آر ٹی سٹیشن میں تیرکر اور ڈبکیاں لگا لگا کر نکلتے.

تقریب میں "بڑھ چڑھ "کر بولنے والے وزیراعلی خیبرپختونخواہ کو بارش کے باعث خراب ہونے والے مائیک سسٹم کے باعث زیادہ دیر خاموش رہنا پڑا کھیلوں کے فروغ کیلئے ہونیوالے اس تقریب میں وزیراعلی خیبرپختونخواہ نے آخری بات چیت سیاسی کی ،

اور جلسے کے حوالے سے خوب گرجے برسے ، لیکن ان کی یہ گرج برس بھی صرف ان کے ساتھ آنیوالے سوشل میڈیا سے وابستہ افراد ہی ریکارڈ کرسکے البتہ ٹی وی چینلز کو بعد ازاں وزیراعلی کے انفارمیشن آفیسر نے وزیراعلی کی تقریر سے متعلق بتایا.

مشیر کھیل اور وزیراعلی خیبرپختونخواہ بارش کے دوران بارش سے گیلے تو خوب ہوئے لیکن اپنے ساتھ آنیوالے سیکورٹی اہلکاروں کو بھی مشکل میں ڈال دیا تھا

پاکستان اتھلیٹکس فیڈریشن کے تعاون سے منعقد کئے جانیوالے اس میراتھن ریس میں ابتدائی پوائنٹ پر بعض غلطیاں ہوئی اور کھلاڑیوں کو یکساں طور پر نہیں چھوڑا گیا بعض اتھلیٹ ابتدائی سٹارٹنگ پوائنٹ پر کھڑے تھے ۔

حالانکہ اس وقت باقاعدہ رننگ کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا جبکہ بعض شوقیہ اتھلیٹ نے رننگ بھی سٹارٹ کردی تھی جنہیں آفیشل کو کلیئر کرنا چاہئیے تھا لیکن پاکستان اتھلیٹکس فیڈریشن اس معاملے میں خاموش نظر آئی ،

پاکستان اتھلیٹکس فیڈریشن کے صدر بھی تقریب میں شامل ہوئے تھے لیکن بارش کے باعث کرسی چھوڑ کر بزنس سنٹر کی طرف بھاگ آئے تھے ،

ان کے ساتھ آنیوالے اور ہٹو بچو کرنے والے افراد کا وہاں پر صحافیوں کیساتھ رویہ بھی عجیب رہا ، صحافی کیمروں کو بارش سے بچانے کی کوششوں میں مصروف عمل تھے جبکہ پاکستان اتھلیٹکس فیڈریشن کے ساتھ آنیوالے افراد صاحب کو بارش سے بچانے کیلئے صحافیوںسمیت ہر ایک کو دھکے دیتے رہے .

اسی طرح بعض جگہوں پر ٹرانس پشاور کے ملازمین بھی سٹیشن پر صرف کھڑے ہی نظر آئے بعض جگہوں پر موٹر سائیکل کے ذریعے فاصلہ طے کرکے بی آر ٹی کے جنگلے عبور کرکے میراتھن ریس میں شامل ہونے کی کوشش کرتے رہے ،

جس کی ویڈیو بھی متعدد جگہوں پر بنائی گئی ، راقم نے تاروجبہ سے تعلق رکھنے والے ایک اتھلیٹ کے جنگلے کے ذریعے بی آر ٹی سٹیشن میں داخل ہوکر ریس میں شامل ہونے کی کوشش کو ناکام بنانے میں کسی حد تک کردار ادا بھی کیا جس میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بعض اہلکاروں کی مدد بھی شامل رہا

جنہوں نے موقع پر موجود ہونے کی وجہ سے فوری طور پر متعلقہ اتھلیٹ کو ڈس کوالیفائی کردیا ریس میں شامل ہونیوالے بعض افراد نے عام استعمال ہونیوالے سفید بنیان پہن کر دوڑ لگائی ،

کہنے کو تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اتنے بڑے ایونٹس میں شامل ہونے کیلئے کم از کم اتھلیٹ کو اپنے کٹس اور حلےے کا خو د ہی حال کرنا چاہئیے تھا کہ پاکستان سطح کے اس ایونٹ میں وہ کس طرح شامل ہو رہے ہیں -جسے نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ قومی اور بین الاقوامی میڈیا نے رات کا وقت ہونے کے باوجود ٹھیک ٹھاک کوریج دی.

اپنی نوعیت کے اس بڑے ایونٹ کے رات کی مصنوعی روشنیوں میں انعقاد کے باعث بعض اتھلیٹ نے پچیس کلومیٹر تک کا سفر اتنی تیز سے طے کیا کہ حیات آباد سپورٹس کمپلیکس تک پہنچتے پہنچتے ان کا پسینہ بھی نہیں نکلا تھا

جو ان کی ہوشیاری اورموٹر سائیکل پرآنے کی نشاندہی کررہا تھا جسے حیات آبادسپورٹس کمپلیکس میں موجود اتھلیٹکس سے وابستہ افراد نے بھی خوب لتاڑا ،

اسی باعث بعض اتھلیٹ جو دو نمبری کرکے پہنچے تھے شرمندگی کے باعث آگے نہیں آئے لیکن بعض نے بقول اپنے اوپر "گدھے کا چرم ” ڈال کر اختتامی تقریب میں ہڑبونگ مچانے کی کوشش کی ،

اور ہر کوئی اپنے آپ کو ٹاپ 20 میں شامل کرنے کیلئے زور دیتا رہاحالانکہ پروفیشنل کھلاڑیوں کے مقابلے میں عام اتھلیٹ کا پچیس کلومیٹر کے اس فاصلے میں آگے آنا ناممکن تھا ،

دوسری طرف بعض اتھلیٹ کا یہ موقف بھی تھا کہ اگر دوسرااتھلیٹ موٹر سائیکل پر آگیا تھا اور وہ آگیا تو اس میں کوئی غلط بات تونہیں تھی. جس کی وجہ سے یہ تقریب کسی حد تک لیٹ بھی ہوئی ،

سیکرٹری سپورٹس خیبرپختونخواہ تو تقریب میں اپنے ساتھ لانے والے بچوں کو کنٹرول کرنے میں مصروف نظر آئے لیکن مشیر کھیل و ڈی جی سپورٹس نے بعض کھلاڑیوں کی جانب سے "مونگ ئی نہ منو” کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے کوشاں نظر آئے بعد ازاں ٹاپ 20کے بجائے ٹاپ 3 کھلاڑیوں کو انعامات دئیے گئے

اور یوں میراتھن پشاور کی یہ تقریب رات دو بجے اختتام پذیر ہوگئی. کھلاڑی اپنی غلطی ماننے کے بجائے سب کچھ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کھاتے میں ڈالتے رہے.

حالانکہ یہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ اورٹرانس پشاور سمیت پاکستان اتھلیٹکس فیڈریشن کی ایک مشترکہ کاوش تھی جس کی کامیابی کا سہرا اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت تمام اداروں کو جانا تھا تو اس میں پائی جانیوالی خامیوں اور غلطیوں کی ذمہ داری بھی ان تینوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے

کم و بیش تیس سے زائد سٹیشنز پر محیط اس میراتھن ریس کے انعقاد سے جہاں ایک طرف آنیوالے قائد اعظم گیمز کیلئے نئے اتھلیٹ سامنے آسکیں گے بلکہ آنیوالے نیشنل گیمز کیلئے بھی کھلاڑیوں کا انتخاب ہوسکے گا

لیکن اگر اس معاملے میںسپورٹس ڈائریکٹریٹ اتھلیٹکس فیڈریشن سے صرف تکنیکی معاونت کے بجائے اس میں ذمہ داریاں بھی شیئر کرتی تو یقینا کھلاڑی بھی کسی حد تک کنٹرول ہوتے .

کیونکہ کھلاڑیوں کو تادیبی کاروائی کا ڈر ہوتا ہے ، اسی باعث وہ گذشتہ رات پیدا ہونیوالی ہڑبونگ جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوتی.کھیل کسی بھی معاشرے میں مثبت سرگرمیوں کو فرو غ دینے سمیت کھلاڑیوں میں صبر،

برداشت اورمخالف کیساتھ فیئر مقابلے کی فضاءپیدا کرتے ہیں لیکن جس طرح کی صورتحال سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی جانب سے منعقدہ اس پروگرام میں بعض کھلاڑیوں نے پیدا کرنے کی کوشش کی

اس سے یہی تو اندازہ ہوتا ہے کہ نئے کھلاڑیوں میں کم از کم برداشت ، صبر اور مقابلے کی فضاءکو مثبت انداز میں کھیلنے کی عادت نہیں رہی.

تعارف: News Editor

error: Content is protected !!
bacansport bacansport bacansport bacansport bacan4d bacan4d bacan4d xx1toto Situs Toto Resmi xx1toto link terbaru xx1toto togel xx1 toto login xx1toto xx1toto link alternatif xx1toto link xx1toto terbaru xx1toto xx1toto petir x10000 xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto bacansport slot gacor gampang menang xx1toto link xx1toto alternatif xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto xx1toto rtp xx1toto xx1toto xx1toto bacan4d bacan4d bacansport bacansport bacansport bacan4d bacan4d ts77casino ts77casino bacan4d xx1toto xx1toto bacansport