خیبرپختونخواہ کی کھیلوں کی ایسوسی ایشنز فنڈز کمی سے پریشان،
سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی متنازعہ پالیسی پر سوالات
مسرت اللہ جان
خیبرپختونخواہ میں کھیلوں کی کم و بیش اڑتیس سے زائد ایسوسی ایشنز گذشتہ تین سالوں سے ا س بات پر پریشان ہیں کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ انہیں کھیلوں کے فروغ کیلئے اور اپنے مقابلوں کے انعقاد کیلئے فنڈز نہیں دے رہی ،
جس کی وجہ سے انہیں کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے دوسری طرف خیبرپختونخواہ میں سپانسرشپ کا بڑا مسئلہ ہے اور کوئی بڑی کمپنی یا ادارہ کھیلوں کے کسی بھی مقابلے کو سپانسر نہیں کررہا
یہ وہ بیانیہ ہے جوتین سالوں سے کم و بیش ہر ایسوسی ایشنز سے وابستہ فرد کررہا ہے ، کسی زمانے میں چالیس ہزار روپے سالانہ لینے والے ان ایسوسی ایشنز کو سابق وزیر کھیل سید عاقل شاہ کے دوروزارت میں سالانہ تین سے پانچ لاکھ روپے دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اس میں اضافے کا بھی اعلان کیا گیا
تھا لیکن اضافہ تو کیاہونا تھا ، کرونا کے آنے کے بعد صورتحال تبدیل ہو گئی اور کھیلوں کے ان ایسوسی ایشنز کو فنڈز نہیں مل رہے ، ہاں یہ الگ بات کہ ان میں کچھ ایسوسی ایشنز کودرپردہ فنڈز مل رہے ہیں لیکن وہ بھی ببانگ دہل یہ نہیں کہہ رہے کیونکہ انہی پتہ ہے کہ اگر انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے فنڈز لئے ہیں تو دوسری ایسوسی ایشنز بھی میدان میں آجائیں گی اور پھر ان کیلئے مسئلہ ہو جائے گا.
کھیلوں کی صوبائی کچھ عرصے قبل تک یہی کہتی آرہی تھی کہ گرانٹ اینڈ ایڈ کی مد میں فنڈز نہیں ہے اس لئے گرانٹ کی ایڈ میں فنڈز نہیں دیا جائیگا
لیکن کچھ ایسوسی ایشنز کو فنڈز دینے اور بیشتر کو "ٹھینگا دکھانے”کی پالیسی بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ہی چلا رہی ہیں اور یہ پالیسی ان کیلئے کیلئے مستقبل میں مشکلات پیدا کرسکتی ہیں ،
آنے والے دنوں میں قائد اعظم گیمز سمیت نیشنل گیمز بھی ہونے ہیں اور کھلاڑیوں کی زیادہ تعداد کھیلوں کے مختلف ایسوسی ایشنز سے منسلک ہے ایسے میں ان ایسوسی ایشنز کیساتھ پنگا
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے ، صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ذرائع کے مطابق فنانس ڈیپارٹمنٹ بجٹ میں گرانٹ اینڈ ایڈ کی مد میں رقم تو رکھ لیتی ہیں
اور سکرین او ر بجٹ میں یہ فنڈز دکھایا بھی جاتا ہے لیکن یہ فنڈز صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو نہیں دیا جارہا، اور اسی فنڈز کی کمی کے باعث بعض ایسے منصوبے بھی اب تقریبا ختم ہوگئے
جنہیں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کھلاڑیوں کی بہتری کیلئے شروع کیا تھا ان میں انڈر 21 کے کھلاڑیوں کیلئے ماہانہ سکالرشپ کا سلسلہ تھا جس میں آدھے سے زائد کھلاڑی اب بھی اس امید پر ہیں کہ انہیں شائد سکالرشپ مل جائے
آدھے اس لئے کہ آدھے کھلاڑیوں کو یہ سکالرشپ مل چکی ہیں اور آدھے کھلاڑیوں نے بینک آف خیبر میں اکاﺅنٹ بھی کھولے تھے لیکن جس طرح کا رونا فنانس ڈیپارٹمنٹ اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ رو رہی ہیں ان حالات میں انڈر 21 کے کھلاڑیوں کیلئے سکالرشپ ملنا بھی مشکل ہے.
کھیلوں کے بعض ایسوسی ایشن جنہیں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے سالانہ فنڈز دئیے ہیں ڈائریکٹریٹ کے ذرائع کے مطابق یہ فنڈز انہوں نے دیگر ذرائع سے حاصل ہونیوالی آمدنی کے مد میں دئیے .
کیونکہ یہ ایسوسی ایشن قومی سطح کے مقابلوں کیلئے خیبرپختونخواہ کی نمائندگی کرنے جارہی تھی اسی بناءپر انہیں وزارت نے فنڈز جاری کیا گیا ، دوسری طرف بعض ایسی ایسوسی ایشنز بھی ہیں
جو قومی سطح کے مقابلوں کیلئے گئی انہوں نے خیبرپختونخواہ کی نمائندگی بھی کی اور مقابلوں میں اپنی پوزیشن بھی واضح حاصل کی
لیکن انہیں فنڈز جاری نہیں کیا ، یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو کھیلوں سے وابستہ افراد کیلئے مسائل پیدا کررہی ہیں کچھ عرصہ قبل بعض ایسوسی ایشنز کو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی جانب سے یہ کہاگیا
کہ وہ مقابلے منعقد کروائے ، ان کی درخواستوں پر باقاعدہ دستخط بھی ذمہ دار افراد نے کئے کہ فنڈز انہیں ریلیز کیا جائیگا لیکن انہیں ادائیگی اب نہیں کی جارہی ، یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے
جنہیں اب مختلف ایسوسی ایشنز آپس میں اکٹھا ہونے اور اتحاد کیلئے کیلئے استعمال کررہی ہیں اور امکان ہے کہ اگلے چند ہفتوں یا دنوں میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے سامنے کھیلوں کے ایسوسی ایشنز کے ذمہ دار احتجاج کرتے نظر آئیں
کیونکہ ان ذمہ داران کے بقول فنڈز میں پسند ناپسند کی پالیسی نہ صرف کھیلوں اور کھلاڑیوں کو متاثر کررہی ہیں بلکہ یہ پالیسی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی2018 کی سپورٹس پالیسی کے خلاف بھی ہے جس میں وزارت کھلاڑیوں کو سہولیات کی فراہمی کی ذمہ دار قرار پائی ہے.
دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ کھیلوں کی بعض ایسوسی ایشنز میں متوازی ایسوسی ایشنز چل رہی ہیں جن میں بعض اضلاع میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈسٹرکٹ سطح پر تعینات ہونے والے ڈی ایس اوز اور دفاتر کے دیگر اہلکار نمائندے اور فریق بنے ہوئے ہیں اور وہ اپنی حیثیت کا غلط فائدہ اٹھا کر اپنے مخصوص ایسوسی ایشنز کو فائدے پہنچا رہے ہیں
کھیلوں کے مقابلے منعقد کروائے جارہے ہیں ضلع کی سطح پر ڈپٹی کمشنر سے بجٹ میں پانچ فیصد کھیلوں اور نوجوانوں کیلئے ملنے والے بجٹ کے بار ے میں سوال کرناڈسٹرکٹ سپورٹس آفسران کو برا لگتا ہے
کیونکہ بیشتر سترہ گریڈ کے اہلکار ہیں اور وہ اپنے آپ کو ڈپٹی کمشنر سمجھتے ہیں کہ کوئی ان سے پوچھے کہ کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد کیلئے کتنے فنڈزجاری ہوئے ، کھلاڑیوں کو کتنے فنڈز جاری کئے گئے ،
ایسوسی ایشنز کے ذریعے یہ مقابلے ہوئے تو کتنے کھلاڑی سامنے آئے ، یہ وہ سوالات ہیں جوبیشتر ڈی ایس اوز دینا بھی پسند نہیں کرتے ، جس کی بڑی مثال خیبر اور ضلع پشاور کے ڈی ایس اوز بھی ہیں جو گذشتہ ایک سال سے رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے تحت معلومات دینا بھی پسند نہیں کرتے
اور نہ ہی رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کی جانب سے جار ی ہونیوالے انتباہی مراسلوں کو بھی پھینک رہے ہیں ، بات ہورہی تھی متوازی ایسوسی ایشنز کی ، کچھ عرصہ قبل سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تعینات ہونیوالے ایک ڈی جی نے باقاعدہ ویٹ لفٹنگ کی متوازی تنظیم کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ،
اسی طرح اتھلیٹکس میں بھی اپنے پسند کے بندے لانے کی کوشش کی ،جس کا نقصان یہی ہوا کہ ان کھیلوںمیں کھلاڑی آنے کم ہوئے تو دوسری طرف بعض افراد نے اس کا غلط فائدہ اٹھایا اور ملازمت کیساتھ ساتھ ذاتی سروسز بھی دینا
سرکاری ادارے میں شروع کردی اور بعض جگہوں پر سرکاری کوچز پرائیویٹ اداروں میں بیٹھ کر اپنی ڈیوٹی کے بجائے پرائیویٹ افراد کیلئے فنڈز پیدا کررہے ہیں اوریہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے اور اس پر صوبائی ڈائریکٹریٹ کی آنکھیں مکمل طور پر بند ہیں
ا ن سب باتوں کے باوجود سب سے اہم بات جو کہ کرنے کی ہے کہ کھیلوں کی بیشتر ایسوسی ایشنز کسی بھی سرکاری ادارے کیساتھ رجسٹرڈ نہیں ،قانون کے مطابق ان تمام ایسوسی ایشنز کو خواہ وہ کسی بھی شعبے کے ہوں انہیں 1861کے قانون کے تحت رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے
لیکن اڑتیس سے زائد ایسوسی ایشن میں صرف ایک یا دو ایسوسی ایشن باقاعدہ صوبائی حکومت کے متعلقہ ادارے کیساتھ رجسٹرڈ ہیں ، باقی بیشتر کاغذات میں رجسٹرڈ ہیں لیکن ان کا کوئی دفتر نہیں ،
نہ ہی بعض کے اکاﺅنٹس ہیں اور نہ ہی کم سے کم سات ممبران کی تعدا د پورے کررہی ہیں ، اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ اپنی ایسوسی ایشن کو رجسٹرڈ کیوں نہیں کررہے تو جواب ملتا ہے
کہ ہم پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتاحالانکہ سرکار سے فنڈز لینے والے اور اپنے آپ کو ایسوسی ایشن کے طور پر متعارف کرانے والے تمام اداروں کی رجسٹریشن لازمی ہے
تاکہ پتہ چل سکے کہ کون اس کھیل اورایسوسی ایشن سے وابستہ ہیں لیکن یہ وہ سوال ہیں جس پر "آنکھیں سب کی بند”ہیں اور شائد کھولنا بھی نہیں چاہتے.