خیبرپختونخوا میں خواتین والی بال ٹیموں کی تشکیل میں ناکامی:
ڈیلی ویجز کوچ کے باوجود صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی غفلت
مسرت اللہ جان
خیبرپختونخوا کی سپورٹس ڈائریکٹریٹ گزشتہ چار سالوں میں خواتین والی بال کی ٹیم تشکیل دینے میں ناکام رہی ہے، حالانکہ ڈیلی ویجز پر ایک خاتون کوچ کو خصوصی طور پر رکھا گیا تھا، جس کا بنیادی مقصد والی بال کی کوچنگ فراہم کرنا تھا۔
تاہم، اس کوچنگ کا مقام اور نتائج ابھی تک سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔خاتون کوچ کی تقرری سابق ڈی جی سپورٹس، اسفندیار خٹک کے دور میں کی گئی تھی، لیکن ان کی تعیناتی کے لیے کوئی واضح منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔
ان کے بعد خالد خان، خالد محمود، اور موجودہ ڈائریکٹر جنرل سپورٹس، عبدالناصر خان بھی والی بال کے فروغ کے لیے کوئی مو¿ثر اقدامات نہ کر سکے۔
خیبرپختونخوا میں والی بال کی مقبولیت کے باوجود، صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے نہ تو مردوں کے لیے جمنازیم بنائے اور نہ ہی خواتین کی کوئی ٹیم تشکیل دی۔ موجودہ دور میں بھی خیبرپختونخوا سے تقریباً سات کھلاڑی قومی والی بال ٹیم میں شامل ہیں،
لیکن مرد کھلاڑیوں کے لیے بھی مناسب سہولتیں میسر نہیں ہیں۔اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی والی بال ٹیم کو پی ایس بی پشاور کے جمنازیم میں ٹریننگ کرنا پڑ رہی تھی حالانکہ وہاں پر ابھی ان پر فیسوں کی وصولی کے بع پابندی لگ گئی .
خواتین والی بال کے حوالے سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی خاتون ڈائریکٹریس، رشیدہ غزنوی کا کہنا ہے کہ صوبے میں خواتین والی بال کی کوچنگ کے لیے کوئی مخصوص جگہ نہیں تھی،
اسی وجہ سے خواتین کوچ کو پشاور کے مختلف کالجز میں کوچنگ کے لیے بھیجا گیا۔ وہ تین سال سے مختلف کالجز میں خواتین والی بال کی ٹیموں کو تربیت دے رہی ہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر کالجز میں خواتین والی بال ٹیمیں تیار ہو رہی ہیں، تو اس کا کریڈٹ کون لے گا؟ کالجز کے ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن اسے اپنی کارکردگی میں شامل کریں گی یا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی والی بال کوچ؟
دونوں ادارے عوام کے ٹیکس سے چلتے ہیں، لیکن کوئی مربوط حکمت عملی نظر نہیں آتی۔اور ایک ہی کام دو اداروں کے اہلکار کرتے نظر آتے ہیں.
ڈائریکٹریس رشیدہ غزنوی کے مطابق ان کے پاس کوئی لسٹ موجود نہیں کہ کتنی خواتین کھلاڑی تیار کی گئی ہیں، البتہ وہ اپنے کوچ پر اعتماد کا اظہار کرتی ہیں کیونکہ بقول ان کے مطابق خاتون کوچ کالجز میں اپنی ٹریننگ کی فوٹیج انہیں موبائل کے ذریعے دکھاتی ہے
البتہ ان چار سالوں میں کوئی فہرست مرتب نہیں ہوسکی نہ ہی ایسی ٹیم جسے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا ٹیم کہا جاسکے.۔ مس رشیدہ غزنوی کے مطابق کچھ کالجز کی کوچز نے اب سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے والی بال کے گیند اور نیٹ کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے،
جسے فنڈز کی کمی کی وجہ سے پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔ان کے مطابق ان کی کوشش ہے کہ فری والی بال کی ٹریننگ خواتین کیلئے شروع ہو لیکن یہاں پر کوئی والی بال کیلئے نہیں آتا