پاکستان کی کپتانی اعزاز ہے۔ محمد رضوان۔
کپتان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ٹیم کو یکجا رکھے۔ پی سی بی ڈیجیٹل کو انٹرویو۔
کبھی بھی کپتانی کی خواہش ظاہر نہیں کی، یہ ذمہ داری اچھی طرح نبھاؤں گا۔
کپتان کی خصوصیت یہ ہے کہ ٹیم کو اکٹھا رکھے۔
اس ٹیم میں ینگ ٹیلنٹ موجود ہے اور یہ ایک مختلف ٹیم نظر آئے گی۔
آسٹریلیا میں ہمیشہ مشکل رہی ہے لیکن آخری ٹیسٹ سیریز ہم قریب جاکر ہارے تھے۔
ضروری نہیں کہ اگر ماضی میں نہیں جیتے تو آئندہ بھی نہ جیت سکیں۔
ہم اس جذبے کے ساتھ جارہے ہیں کہ مقابلہ کرنا ہے اور لڑنا ہے۔
میرا وژن ہے کہ بیک اپ میں پاکستان کا کپتان تیار رہے۔
لاہور 28 اکتوبر۔ پاکستان کے وائٹ بال کپتان محمد رضوان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے کھیلنا کسی بھی کھلاڑی کے لیے خواب ہوتا ہے یہ بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ آپ پاکستان ٹیم کی قیادت کریں۔ اسے بیان کرنا مشکل ہے۔
محمد رضوان نے پی سی بی ڈیجیٹل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ یہ ایک طرف میرے لیے اعزاز بھی ہے اور دوسری طرف چیلنج بھی ہے کہ قوم مجھ سے جو توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے میں اس ذمہ داری کو ان توقعات کے مطابق نبھاؤں۔ میں کوشش کروں گا کہ اس اعزاز اور پریشر میں توازن رکھ کر اسے اچھی طرح ہینڈل کروں۔
رضوان نے کہا کہ قیادت کی ذمہ داری بہت بڑی ہے ۔ وہ اس سے قبل انڈر 19 اور ریجنل اور ڈومیسٹک میں بھی کپتانی کرچکے ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی کپتانی کی خواہش ظاہر نہیں کی ۔ماضی میں جو بھی کپتان گزرے ہیں
انہوں نے ان سے سیکھا ہے۔کچھ نرم صفات کے رہے ہیں کچھ جذباتی رہے ہیں کچھ غصے والے ہیں لہذا کچھ نہ کچھ سیکھا ہے۔کپتانی کی خواہش نہیں کی لیکن جب ذمہ داری آئی ہے تو اسے اچھی طرح نبھانے کی کوشش کروں گا
کیونکہ پاکستان کی کپتانی اور نچلی سطح پر کپتانی میں فرق ہے۔کوشش کروں گا کہ جو کچھ سیکھا ہے اسے اپلائی کروں گا اور اللہ تعالی میرے مدد کریں گے۔
رضوان نے کہا کہ کپتان کی خصوصیت یہ ہے کہ ٹیم کو اکٹھا کیا جائے ۔جب ٹیم اکٹھی ہوتی ہے تو پوری ٹیم اکٹھی نظر آتی ہے وہ کسی ایک بندے کی وجہ سے نظر نہیں آتی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس ینگ ٹیلنٹ بہت موجود ہے۔اس ٹیم میں سب آپ کو کپتان نظر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ پاکستان کے لیے کھیل رہے ہیں تو یہ یقیناً پریشر والا گیم ہے۔وہ ماضی میں وکٹ کیپنگ۔ بیٹنگ اور کپتانی ساتھ ساتھ کرچکے ہیں اور جو کچھ اللہ نے سکھایا ہوا ہے اسے جاری رکھوں گا۔
انہوں نے کہا کہ وہ تمام فارمیٹس میں نائب کپتان بھی رہ چکے ہیں اور پوری ٹیم ان سے خوش تھی اور آگے بھی وہی ہوگا جو پاکستان ٹیم کے لیے اچھا ہو۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا میں ہمیشہ ہمیں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ماضی کے نتائج یہی بتاتے ہیں کہ ہمیں مشکل ہوئی ہے لیکن اگر ہم آسٹریلیا میں آخری ٹیسٹ سیریز دیکھیں تو ہم ہر ٹیسٹ جیتنے کی پوزیشن میں تھے
اور قریب جاکر ہارے ہیں اور ہم نے جو چیزیں نوٹ کی ہیں اگر ہم ان پر کام کریں تو ہم آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ہرائیں گے۔اگر ہم نے ماضی میں نہیں ہرایا تو یہ ضروری نہیں ہے کہ آخر تک ہم اسے نہ ہراسکیں۔ہم اسے سوچ اور جذبے کے ساتھ جارہے ہیں ۔ ہم نے سینئر اور ینگ کھلاڑیوں کے ساتھ ملکر وہاں لڑنا ہے نتیجہ اللہ پر چھوڑا ہوا ہے ۔
رضوان نے کہا کہ ان کا وژن یہ ہے کہ ان کے پاس بیک اپ میں کپتان تیار رہے ۔نہ صرف کپتان تیار رکھنا ہے بلکہ کیپر بھی تیار رکھنا ہے۔ ہم بڑے ٹورنامنٹس میں سیمی فائنل میں آکر ہارتے رہے ہیں ہمیں چیمپئنز ٹرافی اور انڈیا میں ورلڈ کپ کو ذہن میں رکھ کر تیاری کرنی ہوگی۔یہ ہمارے ٹارگیٹ ہونے چاہیئں۔
انہوں نے کہا کہ وہ تمام کھلاڑیوں کے لیے مثال بننا چاہیں گے اور ایسی لیگیسی چھوڑ کر جانا چاہیں گے کہ جب وہ جائیں تو پاکستان کے پاس اچھے کھلاڑی موجود ہوں۔ان کی سب سے بڑی خواہش پاکستان کرکٹ کو اوپر دیکھنا ہے۔
جب ٹیم میں نوجوان کھلاڑی آتے ہیں تو انہیں ایڈجسٹمنٹ میں اور سمجھنے میں وقت لگتا ہے لیکن انہیں لگتا ہے کہ یہ گیپ اب کم ہوگیا ہے اور انہیں امید ہے کہ یہ ٹیم ایک مختلف روپ میں نظر آئے گی۔
رضوان نے کہا کہ شائقین بعض اوقات ہمارے نتائج پر غصہ بھی کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود محبت بھی قائم ہے ۔شائقین کو چاہیے کہ جب ہم بیٹنگ کررہے ہوں تو وہ اس بات سے نہ ڈریں کہ آؤٹ نہ ہوجائیں
آپ چوکے کی توقع رکھیں۔ اسی طرح جب ہم بولنگ کررہے ہوں تو اس بات سے نہ ڈریں کہ چوکا نہ ہوجائے بلکہ کیچ اور آؤٹ کی امید رکھیں۔ آپ مثبت سوچ رکھیں۔ ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کریں گے۔