فنڈز کی کمی ، صرف اولمپک ہی کیوں ، کھیلوں کی ایسوسی ایشن کیوں خاموش ہیں
مسرت اللہ جان
کے پی اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر سید عاقل شاہ نے گذشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے ایسوسی ایشن کیساتھ ساتھ ہونیوالی زیادتیوں پر بات کی اور فنڈز نہ ہونے پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے مستقبل میں احتجاج کی دھمکی دید ی ، دیر آید درست آمد کے مصداق ، شکر ہے کہ سید عاقل شاہ کو خیال آ ہی گیا
، بہ نسبت دیگر کھیلوں کی وزراءکے سید عاقل شاہ کی کھیلوں سے وابستگی اتنی ہے کہ لوگ انہیں سیاسی میدان میں بھی کھیلوں کی وجہ سے پہچانتے ہیں لیکن یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ ان کے ساتھ خیبرپختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن میں ایسی ایشنز بھی شامل ہیں جو ظاہری طور پرسید عاقل شاہ کیساتھ ہے لیکن اندرون خانہ ان کا قبلہ کہیں اور ہے.
سید عاقل شاہ کو یہ باتیں یقینا بری اور سخت لگیں گی ، لیکن کے پی اولمپک ایسوسی ایشن کے حوالے سے اسی رائے کا اظہار سبھی کرتے ہیں کہ کے پی اولمپک ایسوسی ایشن کسی بڑے ایونٹ کے آتے ہی منظر عام پر آجاتی ہیں ویسے عام دنوں میںنہ کے پی اولمپک ایسوسی ایشن اور نہ ہی دیگر ایسوسی ایشن نظر آتی ہیں-
ویسے جولائی کے بعد اکتوبر میں کے پی اولمپک ایسوسی ایشن کا اجلاس کم و بیش چار ماہ بعد ہواہے جس میں فنڈزکی کمی کا رونا رویاگیا کھلاڑیوں کی سہولیات نہ ہونے سے متعلق بات کی گئی ، یہ سب کچھ کے پی اولمپک ایسوسی ایشن کا کام بھی نہیں لیکن کم وبیش اڑتیس کے قریب ایسوسی ایشن کے زیر انتظام ہیں وہ کہاں پر ہیں.
سید عاقل شاہ نے اتھلیٹکس گراﺅنڈ کے حوالے سے بات کی کیا ان سے وابستہ اتھلیٹکس ایسوسی ایشن نے اس معاملے میں کبھی بات کرنے کی ہمت کی ، کہیں کوئی پریس ریلیز،کہیںویڈیوپیغام کسی نے اس حوالے سے جاری کیا ہو،
تووہ راقم کی نظر سے نہیں گزری ، اور نہ ہی ایسی کوئی خبر کسی بھی ایسے صحافی نے جاری کی ہے جو اپنے آپ کو سپورٹس رپورٹر کہتا آیا ہوں یا سپورٹس کی کوریج کرنے والے کسی شخصیت نے اس حوالے سے کوئی اپنا تجزیہ،رپورٹ ، کھلاڑیوں کو درپیش مسائل پربات کی ہو.یہی صورتحال بیشتر کھیلوں کی ایسوسی ایشنزکی ہے ،
بیشترایسوسی ایشن اس چکرمیں ہوتی ہیں کہ ان کی ترتیب صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کیساتھ بہتر رہے تاکہ ان کے ساتھ مستقبل میں اگر کہیں پرمقابلے ہو تو انہیںلگے ہاتھ "کچھ نہ کچھ”ملتارہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر کھلاڑی آپ کے پاس ہے تو آپ کو کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی ضرورت نہیں لیکن اس بات کی سمجھ بہت کم لوگوں کو آتی ہیں –
خیبرپختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن کے اپنے آئین کے مطابق کھیلوںمیں برابری کی بنیاد پر سب کو مواقع دئیے جائیں گے ، ویسے خیبر پختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن نے یہ جاننے کی کی کوشش ہے کہ برابری کی بنیاد پر کھیل تو بڑی بات ہے یہاں پر والی بال کے خواتین کھلاڑیوںکیلئے گراﺅنڈ تک نہیں، مردوںکیلئے جمنازیم تک نہیں ،
ویسے صوبے کی بات تو بڑی بات ہے پشاورمیں کتنے مرد وخواتین کھلاڑی موجودہیں جومختلف کھیلوں سے وابستہ ہیں ، اس بارے میں یقینا ان کھیلوں سے وابستہ ایسوسی ایشن کے نمائندوں کو بھی معلومات میسرنہیں ہے کہ کتنی فیمیل کھلاڑی ہیں ، اسی طرح کونسے کھیل میں سب سے زیادہ خواتین آرہی ہیں ،
یا کبھی انہوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے ان تمام ایسوسی ایشن کا گذشتہ ایک سال کا ریکارڈ چیک کرلیں کہ انہوں نے کتنے ایونٹ منعقد کروائے ہیں کبھی خیبر پختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کونسی ایسوسی ایشن نے سالانہ کیلینڈر نہیں بنائے ،
کتنوں کے دفاتر نہیں ، کتنے ایسوسی ایشن پر عرصہ دراز سے مخصوص لوگ قابض ہیں ، کتنے ایسوسی ایشن رجسٹرڈ ہی نہیں ، اور کتنے ایسوسی ایشن نے سال بھر میں کوئی پروگرام ،
ٹورنامنٹ ہی منعقد کیا ، یہ وہ چند سوالات ہیں جو یقینا سید عاقل شاہ اور ان سے وابستہ اولمپک ایسوسی ایشن کے نمائندوں کو بری لگیں گی لیکن یہ حقیقت ہے. اور حقیقت انتہائی کڑوی ہوتی ہیں.
سید عاقل شاہ کی کھیلوں سے وابستگی اور اس کیلئے محنت و خوار ہونے پر ہمیں کوئی شک نہیں لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ان کے آگے پیچھے کچھ لوگ صرف بیانات کی حد تک ان کے ساتھ ہیں ،
ان میں بعض حکومتی عہدوں پربھی لوگ شامل ہیں لیکن وہ کھیلوں کے فروغ کے حوالے سے کچھ نہیں کررہے ، نہ ہی اپنے رابطے مسائل کے حل کیلئے استعمال کررہے ہیں ،
ان کا یہ بیان کہ نیشنل گیمز کیلئے انہوں نے درخواست صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو دی تھی جس پر تاحال کچھ نہیں ہوا، کم و بیش ساڑھے چھ کروڑ روپے کے فنڈز کے حوالے سے راقم نے کچھ عرصہ قبل اسی فورم کے ذریعے بات کی تھی ،
جو تاحال التواءکا شکارہیں ، ان کا رونا اور احتجاج کی بات کرنا بھی صحیح ہے لیکن ان کے اپنے اڑتیس ایسوسی ایشن اگر ہفتے میں ایک پریس کانفرنس کریں ،
بات کرینگے تو کم ازکم چھ ماہ تک ان ایشوز پر بات ہوسکیں گی لیکن اگر صرف چار ماہ بعد ایک اجلاس ہو اور ایک ہی بات ہوتو پھراس پر کوئی عملدآرمد نہیں ہوتا ، پشتومحاورے کے مصداق روزانہ ایک قطرہ ایک پتھر بھی گرے تو اس میں سراخ کردیتا ہے لیکن یہاں پہلا قطرہ بننے کیلئے کوئی تیار نہیں.
راقم سید عاقل شاہ کے بہت ساری باتوںسے متفق ہے اور اس بات میں بھی حقیقت ہے کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ جو سہولیات کی فراہمی کا ایک ادارہ ہے جس کا بنیادی کام کھلاڑیوں کو سہولیات کی فراہمی ہے اس میں بری طرح ناکام ہے ، کچھ چیزوں میں بہت حد تک بہتری آئی ہے لیکن کچھ مینجمنٹ کے فیصلے ایسے ہیں
جو نہ صرف کھیل اور کھلاڑیوں کو بلکہ پورے صوبے کو متاثر کررہے ہیں ان میں پرائیویٹ کنٹریکٹرز کے ذریعے کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد ہے ، اگر کھیلوں کے مقابلے منعقد ہی کرنے ہیںتوپہلے یہ ڈیسائیڈ کیا جائے
کہ اولمپک چارٹر والے کھیلوں کو فروغ دینا ہے یا پھر روایتی و ثقافتی ، اور اگر دونوںکو سپورٹ کرنا ہے تواس کیلئے کیا کیلنڈر بنایا گیاہے ، اسی طرح اگریہ مقابلے ایسوسی ایشن کے مدد سے کرائے جائیں تو نہ صرف ایسوسی ایشن کی مالی حالت بہترہوجائیگی
اور وہ مسلسل مقابلے منعقد کروا سکیں گے بلکہ ان کا اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا ایک فعال رابطہ بھی بنے گا لیکن یہ صرف کہنا کہ بدنامی کے ڈر سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ پرائیویٹ کنٹریکٹرکے ذریعے مقابلے منعقد کروا رہی ہے
اور حکام اس میں اپنی پوزیشن بہتر رکھنا چاہتی ہے تو پھر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اس فوج ظفر موج کی ضرورت ہی کیا ہے ، صرف ایک ڈائریکٹر جنرل کو تعینات کیا جائے
جو کنٹریکٹرز کو ٹھیکے دے گا ، ویسے بھی کیا کنٹریکٹر ز کو جوٹھیکے ملے ہیں وہ میرٹ کی بنیاد پر ملے ہیں یا ملیں گے ، یہ ایک خواب ہی ہے .اور خواب دیکھنے پر پابندی نہیں.