پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی: ذمہ دار کون اور بہتری کیسے ممکن؟ — اطہر جی کا تجزیہ
پاکستان کی خواتین کی کرکٹ ٹیم کی حالیہ ناقص کارکردگی نے شائقین اور تجزیہ کاروں کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس صورتحال کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہوئے معروف تجزیہ کار اطہر جی نے گہرے تجزیے کے ساتھ اہم نکات پیش کیے ہیں۔
ناکامی کی وجوہات — اطہر جی کا نقطہ نظر
1.انتظامی ناکامی
اطہر جی کے مطابق، ٹیم کی ناقص کارکردگی کی سب سے بڑی وجہ کرکٹ بورڈ کی غیر سنجیدگی اور انتظامی غفلت ہے۔ کوچنگ اسٹاف کی تعیناتی سے لے کر کھلاڑیوں کے انتخاب تک، ہر سطح پر شفافیت اور میرٹ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اطہر جی کا کہنا ہے کہ ٹیم مینجمنٹ میں پیشہ ور افراد کی کمی اور باصلاحیت کوچز کی عدم موجودگی خواتین ٹیم کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔
2. سلیکشن میں پسند نا پسند
اطہر جی نے خواتین کرکٹ ٹیم کے انتخابی عمل پر بھی سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر سلیکشن میں پسند نا پسند اور سفارشی کلچر کو ترجیح دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے باصلاحیت کھلاڑی نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ اطہر جی کا کہنا ہے کہ اگر میرٹ پر فیصلے کیے جائیں، تو کئی باصلاحیت کھلاڑی ٹیم میں جگہ بنا سکتی ہیں۔
3.ٹیلنٹ کی نشاندہی کا فقدان
اطہر جی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان میں خواتین کرکٹ کے لیے گراس روٹ لیول پر کام نہیں ہو رہا۔ اسکول اور کالج لیول پر خواتین کھلاڑیوں کو موقع نہیں دیا جا رہا، جبکہ دیگر ممالک میں یہ بنیادی عمل ہوتا ہے۔ اطہر جی کے مطابق، اگر نئے ٹیلنٹ کو سامنے نہ لایا گیا تو ٹیم میں بہتری کی امید رکھنا مشکل ہوگا۔
4.نفسیاتی اور ذہنی دباؤ
اطہر جی کے مطابق، خواتین کھلاڑیوں کو ذہنی دباؤ اور حوصلہ افزائی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب مسلسل ناکامی کا سامنا ہوتا ہے، تو کھلاڑیوں کا اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔ ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے کھلاڑیوں کی ذہنی صحت پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اطہر جی کے مطابق، خواتین کھلاڑیوں کے لیے ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
5.فٹنس اور فیلڈنگ کا مسئلہ
اطہر جی نے خواتین ٹیم کی فیلڈنگ اور فٹنس پر بھی تنقید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی سطح کی ٹیموں کے مقابلے میں پاکستانی خواتین کھلاڑیوں کی فٹنس کا معیار انتہائی ناقص ہے۔ اس کے علاوہ، گراؤنڈ میں کیچ چھوڑنے اور غلط فیلڈنگ کے مواقع بھی ٹیم کی ناکامی کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
بہتری کے لیے اطہر جی کی تجاویز ;
1.پیشہ ور کوچز اور سپورٹ اسٹاف کی تعیناتی
اطہر جی کے مطابق، خواتین کرکٹ ٹیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تجربہ کار اور عالمی معیار کے کوچز کی خدمات حاصل کی جائیں۔ خواتین کرکٹ میں تجربہ کار کوچز کی تعیناتی سے ٹیم کی کارکردگی میں واضح بہتری آسکتی ہے۔
2.میرٹ پر سلیکشن کو یقینی بنانا
اطہر جی کا کہنا ہے کہ خواتین کرکٹ ٹیم میں صرف اور صرف میرٹ کو ترجیح دی جائے۔ اگر سفارشی کلچر کو ختم کیا جائے تو ٹیم میں قابل کھلاڑی شامل ہو سکتی ہیں، جو جیتنے کا جذبہ رکھتی ہوں گی۔
3.گراس روٹ لیول پر خواتین کرکٹ اکیڈمیز کا قیام
اطہر جی نے تجویز دی کہ اسکول، کالجز اور مقامی سطح پر کرکٹ اکیڈمیز قائم کی جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین کھلاڑیوں کو موقع دیا جا سکے۔ اس عمل سے نئے ٹیلنٹ کی نشاندہی ہوگی اور خواتین ٹیم میں مسابقت کا ماحول پیدا ہوگا۔
4.ذہنی دباؤ کم کرنے کے لیے ماہر نفسیات کی خدمات
اطہر جی کے مطابق، کھلاڑیوں کو ذہنی دباؤ سے نکالنے کے لیے کھیلوں کے ماہر نفسیات کی مدد لینا ضروری ہے۔ یہ کھلاڑیوں کے اعتماد کو بحال کرنے اور ان کے کھیل کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
5.فٹنس اور فیلڈنگ ڈرلز پر زور
اطہر جی نے کہا کہ خواتین ٹیم کے لیے سخت فٹنس ٹریننگ اور فیلڈنگ ڈرلز کو لازمی قرار دینا چاہیے۔ دیگر ٹیموں کی طرح پاکستان کو بھی فٹنس کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ یہ کھیل کے ہر پہلو میں بہتری کے لیے ناگزیر ہے۔
اطہر جی کے مطابق، خواتین کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی سطح سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ بورڈ، ٹیم مینجمنٹ، سلیکشن کمیٹی اور کوچنگ اسٹاف کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
اطہر جی نے اس بات پر زور دیا کہ اگر مندرجہ بالا تجاویز پر عمل کیا جائے تو خواتین کرکٹ ٹیم نہ صرف بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام بھی روشن کر سکتی ہے۔
اطہر جی کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر پاکستان کرکٹ بورڈ سنجیدہ اقدامات کرے تو پاکستانی خواتین کھلاڑی بھی وہ مقام حاصل کر سکتی ہیں جو دیگر ممالک کی کھلاڑیوں کو حاصل ہے۔ ٹیم کے لیے ضروری ہے کہ ہر کھلاڑی کو عزت دی جائے، میرٹ کو ترجیح دی جائے، اور کھلاڑیوں کے اندر جیتنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔
اطہر جی کا تجزیہ یہ واضح کرتا ہے کہ خواتین کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی کی ذمہ داری ٹیم مینجمنٹ، کوچنگ اسٹاف، سلیکشن کمیٹی اور کرکٹ بورڈ پر عائد ہوتی ہے۔ اگر میرٹ پر فیصلے کیے جائیں،
پیشہ ور کوچز کی خدمات حاصل کی جائیں اور خواتین کے لیے کرکٹ اکیڈمیز قائم کی جائیں، تو پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم بین الاقوامی میدان میں کامیاب ہو سکتی ہے۔