خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں کی قائداعظم گیمز میں شاندار کارکردگی، مگر انتظامی نااہلیاں نمایاں
باصلاحیت کھلاڑی، ناکام انتظامات: خیبرپختونخوا کی کامیابیوں کے پیچھے چھپی محرومیاں
رپورٹ ؛ غنی الرحمن
خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں نے اسلام آباد کے جناح سپورٹس کمپلیکس میں منعقدہ قائداعظم بین الصوبائی گیمز میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی،
جو بلاشبہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ یہ کارنامہ اس حقیقت کے باوجود ممکن ہوا کہ ان کھلاڑیوں کو وہ سہولیات فراہم نہیں کی گئیں جو ان کے مقابلے میں پنجاب کے کھلاڑیوں کو دستیاب تھیں۔
خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں نے اپنی محنت اور خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر میدان میں جھنڈے گاڑے اور یہ ثابت کیا کہ اگر انہیں بھی مناسب سہولیات اور تربیت دی جائے تو وہ نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں۔
قائداعظم گیمز سے قبل کھلاڑیوں کو مناسب تربیت فراہم نہ کرنا خیبرپختونخوا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی بڑی کوتاہی تھی۔ پشتو کی ایک کہاوت ہے "پہ جنگ کے اسونہ نہ سربیگی” یعنی جنگ میں گھوڑے تیار نہیں کیے جا سکتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ یا مقابلے سے پہلے ہی تیاری مکمل ہونا ضروری ہے، لیکن بدقسمتی سے خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں کو وہ پیشگی تربیت نہ مل سکی جو ان کے لیے ضروری تھی۔
ٹیم کے انتخاب اور کوچنگ کے حوالے سے کئی مسائل دیکھنے کو ملے۔ سب سے نمایاں مسئلہ یہ تھا کہ فٹبال ٹیم کے کوچنگ کے لیے ایک ایسے ڈی ایس او کو مقرر کیا گیا جو کئی سالوں سے انتظامی عہدوں پر کام کر رہے ہیں،
جبکہ اس شعبے میں ارشد خان جیسے تجربہ کار اور اہل کوچ موجود تھے۔ ارشد خان جو پاکستان فٹبال ٹیم کے سابق کپتان اور کوالیفائیڈ کوچ ہیں، کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا گیا۔ اس غیرمعیاری فیصلے کے نتائج سب نے دیکھے جب خیبرپختونخوا کی ٹیم کی کارکردگی میدان میں کمزور نظر آئی۔
ایک اور قابل ذکر معاملہ یہ ہے کہ شایان جیسے باصلاحیت کھلاڑی جو پاکستان انڈر 16 ٹیم کا حصہ رہ چکے ہیں اور انڈیا کے خلاف سیمی فائنل میں شاندار کارکردگی دکھا چکے ہیں کو آخری لمحے میں ٹیم سے باہر کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ فٹبال حلقوں میں شدید تنقید کا باعث بنا اور اسے انتظامیہ کی نااہلی اور جانبداری قرار دیا گیا۔
خواتین اور مردوں کی ہاکی۔اور فٹبال ٹیموں کے لیے پریکٹس کا بندوبست تک نہیں کیا گیا۔ ان کے پاس کوئی مخالف ٹیم موجود نہیں تھی جس کے ساتھ وہ پریکٹس کر سکتے۔ یہ سب انتظامی غفلت کی عکاسی کرتا ہے۔
مزید یہ کہ دیگر کھیلوں میں بھی تربیت کی کمی اور کوالیفائڈ کوچز کو نظرانداز کرنے کا رجحان دیکھنے کو ملا۔آخری وقت تک کوچز اپنی ڈیلی الاونس کیلئے پریشان رہے۔
خیبرپختونخوا کے کھلاڑیوں نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کامیابیاں حاصل کیں، لیکن ان کی کارکردگی محکمہ کھیل کی ناقص منصوبہ بندی اور انتظامی کوتاہیوں کی وجہ سے مکمل طور پر اجاگر نہ ہو سکی۔
اگر انہیں مناسب سہولیات، تربیت اور اہل کوچز فراہم کیے جاتے تو وہ نہ صرف قائداعظم گیمز بلکہ نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر بھی کامیابیاں سمیٹ سکتے تھے۔