قائد اعظم گیمز ، خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے طاقتور مافیا کے کارنامے
(مسرت اللہ جان، پشاور)
اسلام آباد میں 33 کروڑ روپے کی لاگت کے قائد اعظم گیمز گذشتہ دو دنوں سے جاری ہے اور یہ سلسلہ انیس دسمبر تک جاری رہیگا ابھی تک ملنے والے اطلاعات کے مطابق خیبرپختونخواہ کے مختلف کھیلوںمیں اکا دکا میڈل لینے کا سلسلہ بھی جاری ہے ،
کہیں پرسلو راور کہیں پر براﺅنز میڈل جبکہ بعض میں گولڈ میڈل کی بھی اطلاعات ہیں آئندہ چنددنوں میں کھیلوں کے حوالے سے صورتحال واضح ہوجائیگی ابھی تک جو باتیں سننے کو مل رہی ہیں اس میں اہم بات یہی کہ خیبرپختونخواہ کے کھلاڑیوں سمیت آفیشل کیساتھ بھی اس طرح کا رویہ نہیں رکھا گیاجس طرح دیگر صوبوں کے آفیشل کیساتھ رکھا گیا ،
انہیں ایسے ہوٹلوںمیں رہائش دی گئی ہیںجو دیگر صوبوں سے کم درجے کے ہیں ، خیر آفیشل نے کونسا عمر بھر وہاں رہنا ہے لیکن یہی روئیے ساری عمر یاد رہتے ہیں اور فیصلے اور رابطے بھی انہی رویوں پر ہوتے ہیں ، لیکن ان باتوں میں ہمارے خیبرپختونخوا ہ کے لوگوں کی بھی اپنے کارنامے ہیں –
ایک کارنامہ تو وہاں پرخیبرپختونخواہ کی ایک خاتون جو اپنے بیٹی کیساتھ اسلامآباد گیمز میں حصہ لینے کیلئے گئی تھی وہاں پر ان کی جانب سے کئے جانیوالے سیاسی نعرے بازی نے صورتحال بے قابو کردی تھی لیکن صورتحال کو کنٹرول کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبرپختونخواہ نے فوری طور پر متعلقہ خاتون کو شٹ اپ کال دی اور فوری طور پر وہاں سے ہٹنے کی ہدایت کردی جو آفیشل میں کھڑی ہو کر سیاسی نعرے بازی کررہی تھی –
اس ایشو کو سیکورٹی اداروں نے بھی اٹھایا ہے اوراس حوالے سے تحقیقات بھی ہورہی ہیں لیکن خاتون کھلاڑی کو لے جانے اور اس مقام پر لانے والے کون ہیں یہ نام تاحال صیغہ راز میں ہیں شائد صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اعلی حکام بھی طاقتور مافیا کے سامنے کچھ بھی نہ کرسکے.
خیبرپختونخواہ اولمپک کے صدر سابق صوبائی وزیر کھیل سید عاقل شاہ کو بھی اطلاع مل گئی ہیں وہ بھی وفد کے واپس آنے کے بعد اس پر کوئی اقدام بھی اٹھا لیں- لیکن نہ تو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کوئی وضاحتی بیان جاری کیا ہے اور نہ ہی خیبرپختونخواہ اولمپک ایسوسی ایشن نے اس معاملے پربات کی ہے.
اقدامات کی توقع صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی خاتون ڈائریکٹریس سے بھی اب وہ خواتین اتھلیٹ کررہی ہیں جنہیں چار سو میٹر اوردو سو میٹر کی ریس میں ٹیم کیلئے منتخب کیا گیا تھا لیکن اسلام آباد میں پہنچنے کے بعد انہیں اپنے متعلقہ کھیل کے بجائے لانگ جمپ میں کھیلنے کی ہدایت کردی گئی
اور یوں خیبرپختونخواہ کی باصلاحیت اتھلیٹس مقابلوں میں ہار گئی سوال یہ ہے کہ سب کچھ کوچزاور اپنے من پسند اہلکاروں کے ہاتھوں میں دیکر ±خواتین کھلاڑیوں کیساتھ زیادتی کیوں کی جارہی ہیں ، کیا کسی نے اس بات کا نوٹس لیا کہ خواتین ہاکی کے کھلاڑیوںکو سات دن کے بجائے چھ دن کی ڈیلی کس نے دی ،
اور ان خواتین کھلاڑیوں سے سفید کاغذ پر دستخط کس نے کئے ، تاکہ بعد میں اس پر چھ دن کے بجائے دس دن آسانی سے لکھاجاسکے ، ہاکی کی خواتین کھلاڑی تو بے وقوف تھی کہ دستخط کردیئے لیکن بیڈمنٹن میں ایک ہی پین اور ایک ہی شخص کے ہاتھوں سے لکھے جانیوالے سرٹیفیکیٹس پر بھرتی ہونیوالے کوچز کے کھلاڑی اس معاملے میں ہوشیار نکلی
اور انہوںنے ڈیلی میں ڈنڈی مارنے کی کوشش ناکام بناتے ہوئے صرف دستخط کے بجائے واضح لکھ دیا کہ چھ دن کی ڈیلی انہیں دی جارہی ، جس کانوٹس وزیر کھیل خیبرپختونخواہ نے لیا اور ہدایات جاری کی تبھی گیار ہ خواتین کھیلوں میں کھیلنے والی کھلاڑیوں کو رقم پوری ملی –
کیا اس ڈیپارٹمنٹ میں کچھ لوگ صرف تنخواہیں لینے کیلئے بھرتی ہوئے ہیں ،اپنی ساری عمر ڈیپارٹمنٹ میں گزارنے والے صرف گذشتہ ایک سال کی کارکردگی کوئی بھی بتائے ، دکھائے کہ انہوں نے یہ تیر مارا ہے ، لاکھوں کی تنخواہیں لینے والوں سے اگر پوچھاجائے تو یہ سننے کو ملتا ہے کہ ” فلاں چور ہے اور اس ڈیپارٹمنٹ میں باہر سے آنیوالے تمام چور ہیں” اور ان کے ہاتھوں میںکچھ نہیں سب کچھ یہی کررہے ہیں ہم صرف دستخطوں کیلئے رہ گئے ہیں
لیکن دوسروں پر الزام تراشیاں کرنے والے اگر اپنے گریبان میںدیکھ لیں کہ انہوںنے اپنے متعلقہ شعبوں میں کیا کیا ،کیا سینئر اور گریڈ میں اضافہ ہونے کامطلب یہی ہے کہ آپ صرف دستخط کریں گے .
اس ڈائریکٹریٹ میں متعدد ایسے بڑے گریڈ کے افسران ہیں جن کے عہدے اور گریڈ بہت بڑے ہیں لیکن حقیقت میں انہیںاس وقت کوئی چوکیداریا کسی سکول میں خالہ کی نوکری دینے کیلئے تیار نہ ہو ، لیکن برا ہو سیاسی اثر رسوخ کا ، اس چیز نے جہاںدوسرے ڈیپارٹمنٹس کا بیڑا غرق کیا ہے وہیں پر کھیلوں کا شعبہ بھی اس سے خالی نہیں.
اتھلیٹکس کے شعبے میں مرد کھلاڑیوںکیساتھ ٹرائلز میں ہونیوالے ناانصافیوں کی کہانیاں اسلام آباد سے ہر روز سننے کو مل رہی ہیں ، یہ تو شکر ہے کہ سوشل میڈیا کادور ہے اور ہر ایک کھلاڑی اپنے ساتھ ہونیوالی ناانصافی پر بولنے کیساتھ لکھ بھی ہے یہ الگ بات کہ ان کھلاڑیوں کے بولنے کی ٹائمنگ غلط ہے اگر یہی رونا وہ کھیلوںمیںحصہ لینے سے قبل رو لیتے ہیں تو کم از کم ٹیم میں شامل تو کرلئے جاتے .
لیکن اب اسلام آباد میںقائد اعظم گیمز میں جانے اور مقابلوں میں رہ جانے کے بعد یہی رونا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے غلط ہے لیکن یہ بات اس سے زیادہ افسوسناک ہے کہ اس ڈیپارٹمنٹ میں مستقل کوچز کا مافیا بہت طاقتور ہے ، خاتون کی نعرے بازی سے لیکر کھلاڑیوں کے ٹرائلز میں شامل کرنے سمیت کچھ مخصوص کوچز کے نام آرہے ہیں –
اسی طرح اپنے ساتھ ہونیوالے نانصافی کے بعد خیبرپختونخواہ کے بعض کھلاڑی بلوچستان سے کھیلے جن کے ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں اور اب ان کے بیانات بھی آرہے کہ ان کیساتھ اپنے صوبے کے لوگوں نے اتنی زیادتی کہ آئندہ کیلئے انہوں نے کھیلوں کے شعبے سے توبہ کرنے کا علان کردیا.
کیا صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کچھ کوچز بشمول چیف کوچ اتنے مضبوط ہیں کہ ان سے پوچھنے کی ہمت ڈی جی سپورٹس ، سیکرٹری سپورٹس اور حد سے زیادہ شریف وزیر کھیل فخر جہاں میں نہیں ، کہ ٹرائلز میں ناانصافی کا شکار کھلاڑیوں کو بلا کر ان سے پوچھ لیں کہ انکے ساتھ ٹرائلز میں کس نے زیادتی کی ،
اور وہاں پر یہ کھلاڑی دوسرے صوبے سے کیوںکھیلے ، اسی طرح خواتین اتھلیٹس کو دیگر مقابلوں میںڈالنے والوں سے پوچھ تولیں کہ کیا ایسی مجبوری تھی ، صرف کوچ کا یہ کہہ دینا کہ تم کرسکتے ہو کرلو ، اور دوسرے مقابلوں میںڈال دے ،
اور مقابلوں سے واپس آکر صرف یہ کہہ دینا بھی نہیںاتھلیٹکس میں ہمارے پاس گراﺅنڈ نہیں تھا ، مرد کھلاڑیوں نے ٹریننگ بھی سڑکوں پر کی لیکن اپنی ٹریننگ مکمل کی ، اب یہ کہنا کہ ٹریننگ کیلئے جگہ نہیں تھی ، یا پھر ہار جیت تو ہوتی رہتی ہیں ،
اگلی بار پھر کرلیں گے ، یہ وہ باتیںہیںاور بیانات ہیں جو صرف سیاستدان ہی کرسکتے ہیں جس چیز پر کوچزڈائریکٹریٹ سے تنخواہیں لیتے ہیں اوران کے گھرکے اخراجات چلتے ہیں کیا
اس میں ڈنڈی مارنا یا پھر کھلاڑیوںکا حق مارنا حرام خوری کے زمرے میں نہیں آتا.کیا ان لوگوںکو احتساب کا ڈر نہیں. ویسے دوسروں کے بچوں کیساتھ زیادتی کرنے والے اپنے بچوں کو شائد بھول رہے ہیں کہ انہیں بھی اس طرح کی صورتحال کا مستقبل میں سامناکرنا پڑے گا.
جس طرح وہ دوسروں کے بچوں کیساتھ کررہے ہیں.مالی وسائل کم ہونے کارونا رونے والی وزارت کھیل خیبرپختونخواہ نے کم و بیش ستر لاکھ روپے دستے پر خرچ کئے ہیں ان ستر لاکھ میں اب صوبے کو کیا دیکھنے کو ملے گایہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا