رحم بی بی، خواتین کھیلوں کی ترقی میں ایک ناقابلِ فراموش کردار
ان کی کاوشوں سے کرکٹ، اتھلیٹکس، ٹیبل ٹینس اور کئی کھیلوں کی کئی خواتین کھلاڑیوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور خیبرپختونخوا کا نام روشن کیا ہے۔
اگر محکمہ کھیل نے رحم بی بی کو کسی مشاورتی یا انتظامی عہدے پر خدمات انجام دینے کا موقع فراہم کیا،تو انکے وسیع تجربےکی بدولت ٹیلنٹ سامنے۔ائےگا، بلکہ خواتین کھیلوں کے فروغ کے لیے دیرپا اور مثبت نتائج بھی حاصل ہوں گے۔
پشاور کے معروف تعلیمی ادارے فرنٹیئر کالج کی باصلاحیت سپورٹس لیکچرر رحم بی بی نے خیبرپختونخوا میں خواتین کھیلوں کی ترقی میں کئی دہائیوں تک بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔
ان کی کاوشوں سے نہ صرف خواتین کھلاڑیوں کو کرکٹ بلکہ دیگر کھیلوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کا موقع ملا، بلکہ انہی کے زیرِ سایہ تربیت حاصل کرنے والی کئی کھلاڑیوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور خیبرپختونخوا کا نام روشن کیا ہے۔
رحم بی بی نہ صرف مقامی سطح پر اپنی خدمات کی بدولت مشہور ہیں بلکہ انہوں نے چین میں کھیلوں کے شعبے میں "سپورٹس مینجمنٹ” اور "کوچنگ” کی اعلیٰ تربیت بھی حاصل کی ہے۔
اس بین الاقوامی تربیت نے ان کے تجربے اور صلاحیتوں میں مزید اضافہ کیا اور انہیں کھیلوں کے جدید اصولوں اور تکنیکوں سے روشناس کروایا۔ ان کی یہ مہارت خیبرپختونخوا میں خواتین کھیلوں کے فروغ میں ایک اہم محرک ثابت ہوئی۔
رحم بی بی کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کا تجربہ اور لگن کھیلوں کی دنیا میں ایک مثال ہے۔ ان کی محنت اور رہنمائی کی بدولت خیبرپختونخوا میں خواتین کھیلوں کو نہ صرف پذیرائی ملی بلکہ خواتین کھلاڑیوں کے لیے نئے مواقع بھی پیدا ہوئے۔
اگرچہ رحم بی بی اب ریٹائر ہوچکی ہیں اور گھریلو زندگی بسر کر رہی ہیں، لیکن یہ محکمہ کھیل خیبرپختونخوا کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ ان کے تجربے اور خدمات سے استفادہ کیا جائے۔ ان کی بین الاقوامی تربیت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خواتین کھیلوں کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔
محکمہ کھیل کو چاہیے کہ رحم بی بی کو کسی مشاورتی یا انتظامی عہدے پر خدمات انجام دینے کا موقع فراہم کرے۔ ان کے وسیع تجربے اور بین الاقوامی تربیت کی بدولت نہ صرف خواتین کھلاڑیوں کی تربیت میں بہتری آئے گی بلکہ خواتین کھیلوں کے فروغ کے لیے دیرپا اور مثبت نتائج بھی حاصل ہوں گے۔
رحم بی بی جیسی باہمت، تجربہ کار اور بین الاقوامی طور پر تربیت یافتہ خاتون کی خدمات کو نظرانداز کرنا خیبرپختونخوا میں خواتین کھیلوں کے لیے ایک نقصان ہوگا۔
اگر ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا گیا تو یہ نہ صرف کھیلوں کے شعبے بلکہ پورے صوبے کے لیے ایک روشن قدم ہوگا۔ امید ہے کہ محکمہ کھیل اس اہم پہلو پر غور کرے گا اور خواتین کھیلوں کے فروغ کے لیے اس باصلاحیت خاتون کو دوبارہ میدان میں لانے کے لیے اقدامات کرے گا۔