پی سی بی نے 2024 کے لیے ہال آف فیم کرکٹرز کا اعلان کر دیا۔
مشتاق محمد ، انضمام الحق، سعید انور اور مصباح الحق ہال آف فیم میں شامل ۔
یہ کرکٹرز ہمارے سفیر ہیں اور پی سی بی انہیں یہ اعزاز دینے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ محسن نقوی
· مجھے امید ہے کہ ہمارے کرکٹرز ان عظیم کھلاڑیوں کے نقش قدم پر چلیں گے۔ محسن نقوی
اسلام آباد ؛ 10 جنوری ۔ نوازگوھر
پاکستان کرکٹ بورڈ نے چار سابق ٹیسٹ کرکٹرز مشتاق محمد۔ انضمام الحق ۔ سعید انور اور مصباح الحق کو ہال آف فیم 2024 میں شامل کرلیا ہے۔
یاد رہے کہ پی سی بی ہال آف فیم میں اس سے قبل عبدالقادر، اے ایچ کاردار، فضل محمود، حنیف محمد، عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم، وقار یونس، یونس خان اور ظہیر عباس شامل ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ پی سی بی ہر سال دو کرکٹرز کو ہال آف فیم میں شامل کرتا ہے تاہم اس مرتبہ چار کرکٹرز اس لیے شامل کیے گئے کیونکہ 2023 میں کسی کرکٹر کو ہال آف فیم میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
اس مرتبہ ہال آف فیم میں ان چار آئیکونز کو ایک آزاد اور شفاف ووٹنگ کے عمل کے ذریعے شامل کیا گیا جس میں وسیم اکرم، ظہیر عباس (دونوں پی سی بی ہال آف فیمرز) اظہر علی (سابق کپتان) بسمہ معروف، نین عابدی (دونوں سابق بین الاقوامی ویمنز کرکٹرز) ماجد بھٹی، محی شاہ، محمد یعقوب، نعمان نیاز، سویرا پاشا اور زاہد مقصود (کرکٹ صحافی/ تجزیہ کار) نے شرکت کی۔
چاروں اسٹالورٹس کو اس سال کے دوران باقاعدہ طور پر پی سی بی ہال آف فیم میں شامل کیا جائے گا اور انہیں یادگاری ٹوپیاں اور خصوصی طور پر ڈیزائن کی گئی تختیاں پیش کی جائیں گی۔
انضمام الحق نے 1991 سے 2007 تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی اور 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستان ٹیم کے رکن رہے۔
مصباح الحق نے 2001 سے 2017 تک پاکستان کی نمائندگی کی اور ان کی قیادت میں پاکستان ٹیم 2016 میں آئی سی سی ٹیسٹ ٹیم رینکنگ میں نمبرایک پوزیشن پر آئی ۔ وہ 2009 میں آئی سی سی مینز ٹی 20 ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم میں بھی شامل تھے۔
مشتاق محمد نے 1959 سے 1979 تک پاکستان کی نمائندگی کی اور کپتان بھی رہے۔
1977 میں ان کی قیادت میں پاکستان نے پہلی بار آسٹریلیا میں اپنا پہلا ٹیسٹ جیتا ۔ وہ آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ 1999 کے فائنل میں پہنچنے والی ٹیم کے کوچ بھی تھے۔
سعید انور نے 1989 سے 2003 تک پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے مجموعی طور پر 31 سنچریاں اور 68 نصف سنچریاں بنائیں۔
1996، 1999 اور 2003 کے ورلڈ کپ میں ان کی تین سنچریاں اور تین نصف سنچریاں شامل تھیں۔
چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے میں ان چاروں کرکٹ لیجنڈز کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور پی سی بی ہال آف فیم میں ان کی شمولیت ان کی گرانقدر خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ مشتاق محمد کو پاکستان کے بہترین کپتانوں میں شمار کیا جاتا ہے، جو اپنی ہوشیار قیادت اور متاثر کن انداز کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔
محسن نقوی کا کہنا ہے کہ انضمام الحق کے بے پناہ ٹیلنٹ اور میچ جیتنے کی صلاحیت نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔مصباح الحق نے مشکل وقت میں پاکستانی ٹیم کی قیادت سنبھالی ۔ٹیسٹ رینکنگ کا عروج اور کیریبین میں تاریخی ٹیسٹ سیریز جیتنا ان کے کریئر کا اہم حصہ ہے جبکہ سعید انور نے اپنے فطری وقار اور کلاسیکل تکنیک کے ساتھ اوپنر کے کردار کی نئی تعریف پیش کی اور تمام حالات میں دنیا کے بہترین بولرز کے خلاف کامیابی حاصل کی۔
انہوں نے کہا کہ کھیل کے یہ چار بڑے کھلاڑی پاکستان کی بھرپور کرکٹ کی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ان کے تعاون نے نہ صرف پاکستان کے اندر کھیل کو بلند کیا
بلکہ مستقبل کی جنریشن کو بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دی۔ ان کی قابلیت، کشش اور غیر متزلزل عزم نے انہیں کرکٹ کا حقیقی سفیر بنا دیا ہے اور پی سی بی ان کے کارناموں کو اعزاز دینے میں بے حد فخر محسوس کرتا ہے۔
پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس نے ایسے غیر معمولی کھلاڑی پیدا کیے جنہوں نے عالمی سطح پر اپنی مہارت اور کھیل کا لوہا منوایا۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے کرکٹرز ان آئیکونز کو دیکھیں گے
اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں گے، ان کی میراث کو آگے بڑھاتے ہوئے اور کرکٹ کے پاور ہاؤس کے طور پر پاکستان کی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے۔
ہال آف فیم 2024 کرکٹرز کے کریئر کی خاص باتیں۔
انضمام الحق۔
ون ڈے کرکٹ میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ11701 رنز بنانے والے کھلاڑی ہیں۔ اس وقت پاکستان کے سب سے زیادہ ٹیسٹ رنز بنانے والے بیٹرز کی فہرست میں 8829 رنز کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔
31 ٹیسٹ میں پاکستان کی کپتانی کی، 11 جیتے، 9 ڈرا ہوئے اور 11 ہارے۔ 87 ون ڈے میچوں میں بھی قیادت کی، 51 میں جیت ہوئی ، 33 ہارے اور 3 غیر نتیجہ رہے۔ ان کی 25 ٹیسٹ سنچریوں میں سے17 میں پاکستان جیتا۔
10 ون ڈے سنچریوں میں سے 7 میں پاکستان نے کامیابی حاصل کی ۔انگلینڈ کے خلاف (1,584 رنز؛ 54.62)، سری لنکا (1،559 رنز؛ 59.96)، ویسٹ انڈیز (1،124 رنز؛ 53.52)، نیوزی لینڈ (1059 رنز؛ 66.18) اور بھارت کے خلاف 833 رنز 52.06) کی اوسط سے اسکور کیے۔
انہیں 1992 کے ورلڈ کپ میں شہرت ملی جب نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں انہوں 37 گیندوں پر 60 رنز بنا کر فتح حاصل کی، اور پھر انگلینڈ کے خلاف فائنل میں 35 گیندوں پر 42 رنز بنائے۔
1995 اور 1997 کے دوران آئی سی سی کی عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں 79 دن ٹاپ پر رہے 2002 میں لاہور میں نیوزی لینڈ کے خلاف ان کی 329 رنز کی اننگز پاکستان کی ٹیسٹ تاریخ میں 1958 میں برج ٹاؤن میں حنیف محمد کے 337 کے بعد دوسرا سب سے بڑا اسکور ہے۔ 2005 میں بنگلورو میں انڈیا کے خلاف 184 رنز بنائے، وہ صرف ان 10 کھلاڑیوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے 100 ویں ٹیسٹ میں سنچری بنائی۔
2001 سے 2006 تک انگلینڈ کے خلاف پچاس یا زائد رنز کی مسلسل9 اننگز کھیلیں جو کسی ایک ملک کے خلاف مسلسل نصف سنچریاں کا ریکارڈ ہے۔ ۔دو بار چیف سلیکٹر کے طور پر پاکستان کی خدمت کی اور افغانستان کی کوچنگ بھی کی۔
مصباح الحق ۔
مصباح الحق کم از کم 50 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی کپتانی کرنے والے واحد کرکٹر ہیں ۔ 56 ٹیسٹ میں قیادت کی اور 26 میں فتح حاصل کی۔ انہوں نے 87 ون ڈے میچز (بشمول 2015 ورلڈ کپ ) میں ٹیم کی قیادت کی اور آٹھ ٹی ٹوئنٹی میچز میں بھی کپتان رہے۔
اپنے 162 ون ڈے میچوں میں 5,122 رنز بنائےجو کسی بھی کرکٹر کے بغیر سنچری کے سب سے زیادہ رنز ہیں۔ انہوں نے 42 نصف سنچریاں اسکور کیں۔
2016 میں ان کی کپتانی میں پاکستان نے پہلی بار آئی سی سی مینز کی ٹیسٹ ٹیم رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
انہوں نے تین ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ 2007میں پاکستان فائنل میں پہنچا جبکہ 2009میں پاکستان چیمپئن بنا ۔
2014 میں آسٹریلیا کے خلاف ابوظہبی ٹیسٹ میں ان کی 21 گیندوں پر 24 منٹ کی نصف سنچری ٹیسٹ کی تاریخ کی گیندوں اور منٹ کے لحاظ سے تیز ترین نصف سنچری ہے۔
انہوں نے 56 گیندوں پر اپنی سنچری اسکور کی جس نے اس وقت کا ریکارڈ برابر کیا اور اب بھی ٹیسٹ کی تاریخ کی مشترکہ دوسری تیز ترین سنچری ہے۔
2011 اور 2015 کے ورلڈ کپ کے 15 میچوں میں کھیلے، سات نصف سنچریاں اسکور کیں؛ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں تین بار 99 کا اسکور کرنے والے واحد کھلاڑی ہیں۔
2017 میں پاکستان کو اپنی قیادت میں ویسٹ انڈیز میں واحد ٹیسٹ سیریز جتواکر اپنے کریئر کا اختتام کیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد 2019-2021 تک پاکستان مینز کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے طور پر خدمات انجام دیں ۔ وہ 2019 ۔ 2020کے دوران چیف سلیکٹر بھی تھے۔
مشتاق محمد ۔
مشتاق محمد نے 1959-1979 تک 57 ٹیسٹ میچوں میں 3,643 رنز بنائے اور 79 وکٹیں حاصل کیں۔ 1976 اور 1979 کے درمیان 19 ٹیسٹ میں پاکستان کی کپتانی کی، آٹھ جیتے (بشمول 1977 میں سڈنی میں آسٹریلیا میں پاکستان کی پہلی ٹیسٹ جیت ) سات ڈرا ہوئے اور چار ہارے۔ 1975 کا پہلا ورلڈ کپ بھی کھیلے۔
جنوری 1957 میں کراچی وائٹس کی طرف سے سندھ کے خلاف حیدرآباد میں صرف 13 سال اور 41 دن کی عمر میں اپنے فرسٹ کلاس ڈیبیو پر28 / 5 وکٹ لیے اور 87 رنز اسکور کیے۔
15 سال 124 دن کی عمر میں لاہور میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستان کی نمائندگی کی وہ اسوقت دنیا کے سب سے کم عمر ٹیسٹ کرکٹر تھے۔ دو سال بعد انہوں نے نئی دہلی میں بھارت کے خلاف 101 رنز بنائے جب ان کی عمر 17 سال 78 دن تھی اسوقت تک وہ ٹیسٹ میں سنچری بنانے والے سب سے کم عمر بیٹر تھے۔
ڈنیڈن میں نیوزی لینڈ کے خلاف 201 اور 49/ 5وکٹ کے ساتھ ایک ہی ٹیسٹ میں ڈبل سنچری بنانے اور ایک اننگز میں پانچ وکٹیں لینے والے صرف دو کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔
1970 کی دہائی میں ریورس سویپ کی ابتدا کرنے والے پہلے کھلاڑیوں میں سے ایک کے طور پرانہیں جانا جاتا ہے۔ 1964 سے 1977 تک نارتھمپٹن شائر کے لیے کھیلے اور اس کی پہلی ٹرافی 1976 کا جیلٹ کپ اپنی کپتانی میں جیتا۔
آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ 1999 کے فائنل میں پاکستان کی کوچنگ کی۔مشتاق محمد کے تین بھائیوں حنیف محمد وزیرمحمد اور صادق محمد نے بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلی جو چار بھائیوں کا ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا منفرد واقعہ ہے۔
سعید انور۔
سعید انور نے اگرچہ اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں پیئر حاصل کیا لیکن اپنے تیسرے ٹیسٹ میں 169 رنز بنانے اور کریئر کا اختتام 55 ٹیسٹ میں 4,052 رنز اور گیارہ سنچریوں پر کیا ۔سات ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی کپتانی کی۔
247 ون ڈے میچوں میں 8,824 رنز بنائے جس میں ملک سے باہر 205 ون ڈے میں 7,227 رنز بھی شامل ہیں۔ون ڈے میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 20 سنچریاں اسکور کیں۔11 ون ڈے میں کپتانی بھی کی۔
اپنی آخری ٹیسٹ اننگز میں سنچری بنائی (101 بمقابلہ بنگلہ دیش، ملتان، 2001) سری لنکا کے خلاف· 52 ون ڈے میں 2,198 رنز بنائے انڈیا کے خلاف 50 ون ڈے میچوں میں 2002 رنز۔ سری لنکا کے خلاف 11 ٹیسٹ میں 919 رنز اور آسٹریلیا کے خلاف 8 ٹیسٹ میں 886 رنز بنائے۔
1993 میں شارجہ میں سری لنکا کے خلاف 107، ویسٹ انڈیز کے خلاف 131 اور سری لنکا کے خلاف 111 رنز اسکور کیے یہ ون ڈے کرکٹ میں لگاتار تین سنچریاں تھیں۔ 1997 میں چنئی میں بھارت کے خلاف 194 رنز بنا کر ویوین رچرڈز کا ون ڈے کرکٹ میں سب سے زیادہ انفرادی اسکور کا ریکارڈ توڑا۔
1996 کے اوول ٹیسٹ میں انگلینڈ کے خلاف ان کی 176 رنز کی اننگز نے انھیں وزڈن کرکٹرز المناک کے سال کے پانچ بہترین کرکٹرز میں سے ایک قرار دینے میں مدد کی۔ 1999 میں کولکتہ میں انڈیا کے خلاف بیٹ کیری کیااور میچ وننگ 188 رنز بنائے۔ 1996، 1999 اور 2003 میں لگاتار تین آئی سی سی مینز کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹر تھے۔