مضامین

ٹیم میں اچانک بڑی تبدیلیاں نقصان دہ، محمد رضوان مڈل آرڈر میں کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں

ٹیم میں اچانک بڑی تبدیلیاں نقصان دہ، محمد رضوان مڈل آرڈر میں کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں

تحریر: عبدالغفار خان سپورٹس لنک پی کے

پاکستان کرکٹ ٹیم کی چیمپئنز ٹرافی کے پہلے مرحلے میں ناکامی کے بعد سابق کرکٹرز کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ خاص طور پر وسیم اکرم نے کھلاڑیوں، بالخصوص سینئرز پر شدید تنقید کرتے ہوئے ٹیم میں پانچ سے چھ بڑی تبدیلیوں کی تجویز دی ہے۔

ان کے مطابق یہی کھلاڑی کئی سالوں سے ٹیم کا حصہ ہیں، مگر پاکستان کسی بھی بڑے ایونٹ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکا، اس لیے اب نوجوان کھلاڑیوں کو آزمانے کا وقت آ چکا ہے۔

وسیم اکرم کا مؤقف اپنی جگہ، لیکن کیا اچانک اتنی بڑی تبدیلیاں واقعی ٹیم کو بہتر بنا سکتی ہیں؟ کیا سینئر کھلاڑیوں کو ایک دم ڈراپ کرکے نئے چہروں کو کھلانے سے نتائج فوراً تبدیل ہو جائیں گے؟

میرے خیال میں ایسا ممکن نہیں۔ کرکٹ میں تسلسل اور استحکام بےحد ضروری ہوتا ہے، اور تجربہ کار کھلاڑیوں کی موجودگی نوجوانوں کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اگر ٹیم کی کارکردگی میں مسائل ہیں تو ان کا حل مرحلہ وار بہتری لانا ہے، نہ کہ پورے کمبی نیشن کو ایک ساتھ توڑ دینا۔

محمد رضوان کی فارم اور کارکردگی پر بات ہو رہی ہے، اور ان پر بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ ٹیم کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہے۔ لیکن اگر گہرائی میں جا کر تجزیہ کیا جائے تو وہ ایک تجربہ کار بیٹسمین ہیں،

جنہوں نے کئی مواقع پر پاکستان کو دباؤ سے نکالا ہے۔ ٹی20 اور ون ڈے کرکٹ میں ان کا اسٹرائیک ریٹ اور کھیلنے کا انداز کسی بھی ٹیم کے لیے اہم ہو سکتاہے

بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ رضوان کو مڈل آرڈر میں آزمانا چاہیے، جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں بروئے کار لا سکتے ہیں۔ وہ لمبی اننگز کھیلنے اور اننگز کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے ان کی جگہ ٹیم سے باہر نہیں بلکہ بیٹنگ آرڈر میں ایڈجسٹمنٹ ہونی چاہیے

پاکستان کرکٹ میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر بڑی ناکامی کے بعد جلد بازی میں سخت فیصلے لیے جاتے ہیں۔ 2019 ورلڈکپ کے بعد بھی ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں، مگر اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔

سینئر کھلاڑیوں کے مکمل اخراج سے ٹیم کو مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ نئے کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم جمانے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔

بہتر حکمت عملی یہ ہوگی کہ تدریجی تبدیلیاں کی جائیں، تاکہ ٹیم کا کمبی نیشن خراب نہ ہو۔ ایسے کھلاڑی جو مسلسل ناکام ہو رہے ہیں، انہیں بینچ پر بٹھایا جائے یا متبادل مواقع دیے جائیں، مگر ایک ساتھ کئی اہم کھلاڑیوں کو ہٹانے سے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

پاکستان کو 2026 کے ٹی20 ورلڈکپ کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی شروع کرنی ہوگی، لیکن اس کے لیے سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ صرف کھلاڑیوں کو نکالنے سے ٹیم بہتر نہیں ہوگی، بلکہ کوچنگ، سلیکشن پالیسی، اور ڈومیسٹک اسٹرکچر میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

جب تک پاکستان کرکٹ بورڈ ایک واضح اور مستقل مزاج حکمت عملی نہیں بناتا، تب تک ٹیم کی کارکردگی میں اتار چڑھاؤ آتا رہے گا۔ کرکٹ میں تسلسل کا ہونا ضروری ہے، اور اگر ہر ناکامی کے بعد ٹیم میں بڑے پیمانے پر ردوبدل ہوتا رہا تو گرین شرٹس مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔

وسیم اکرم کی تنقید اور تجویز ایک حد تک درست ہو سکتی ہے، لیکن کرکٹ میں کامیابی کا دارومدار صرف کھلاڑیوں کی تبدیلی پر نہیں، بلکہ ایک مضبوط اور مستحکم سسٹم پر ہوتا ہے۔

محمد رضوان جیسے کھلاڑی مڈل آرڈر میں اچھا کھیل سکتے ہیں، اور ٹیم کو بہتر بنانے کے لیے تدریجی اور منطقی فیصلے کرنا زیادہ فائدہ مند ہوگا، بجائے اس کے کہ ایک ساتھ کئی اہم کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کر دیا جائے۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!