پشاور کے قیوم سٹیڈیم کی اوپن ایئر جیم، سہولت یا بھول بسری کہانی؟
پشاور کے قیوم سٹیڈیم کی اوپن ایئر جیم، سہولت یا بھول بسری کہانی؟
پشاور ؛ رپورٹ : غنی الرحمن
پشاور کے قیوم سٹیڈیم میں عوام کے لیے نصب کی گئی اوپن ایئر جم کا حالیہ حال دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کسی بھولے بسرے منصوبے کا حصہ تھی،
جسے صرف ایک افتتاحی تقریب کے لئے مکمل کر کے چھوڑ دیا گیا۔ جس مقصد کے تحت یہاں ورزش کا جدید سامان لگایا گیا تھا، وہ نہ صرف پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے بلکہ اب کئی مشینیں یا تو غائب ہو چکی ہیں یا خراب حالت میں بے یار و مددگار پڑی ہیں۔
یہ منصوبہ محکمہ کھیل خیبرپختونخوا کے تحت مکمل کیا گیا تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس کے لیے کوئی دیکھ بھال اور نگرانی کا نظام بھی ترتیب دیا گیا تھا؟
اگر تھا، تو پھر یہ سامان چوری کیسے ہوا؟ اور اگر نہیں تھا، تو کیا یہ منصوبہ صرف تصویریں کھنچوانے اور خبروں کی زینت بنانے کے لیے تھا؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ قیوم سٹیڈیم کے اندر اور اطراف میں ہر جگہ سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، جن پر بھاری لاگت آئی ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کیمرے ہر جگہ موجود ہیں،
تو پھر چوری کی وارداتیں کیسے ہو رہی ہیں؟ کیا ان کیمروں کی مانیٹرنگ کی جاتی بھی ہے یا یہ صرف نمائشی اقدامات ہیں؟ اگر مانیٹرنگ ہو رہی ہے تو پھر چوری کرنے والے پکڑے کیوں نہیں جاتے؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قیوم سٹیڈیم میں ایک ایڈمنسٹریٹر بھی تعینات ہے، لیکن معلوم نہیں کہ ان کی ذمہ داری کیا ہے۔ اگر انہیں اپنی ذمہ داریوں کا علم نہیں تو کسی کو چاہیے کہ انہیں سمجھا دے۔ عوامی سہولت کے منصوبے صرف لگانے کے لیے نہیں ہوتے، بلکہ ان کی حفاظت اور دیکھ بھال بھی ایک مستقل عمل ہے۔
قیوم سٹیڈیم جیسے اہم مقام پر ہونے والی چوری ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یا تو متعلقہ ادارے جان بوجھ کر خاموش ہیں یا ان میں اہلیت اور دلچسپی کی کمی ہے۔ اگر ایڈمنسٹریٹر اور دیگر ذمہ داران اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے، تو پھر ان عہدوں کا کیا فائدہ؟
یہ وقت ہے کہ متعلقہ حکام اس مسئلے کا نوٹس لیں اور فوری اقدامات کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان چوری شدہ سامان کی تفصیل جاری کی جائے اور تحقیقات کی جائیں کہ اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟
سپورٹس کمپلیکس جیسے اہم مقام پر حفاظتی کیمرے نصب کیے گئے ہیں، تو ان کی مانیٹرنگ یقینی بنائی جائے۔ اگر کیمرے فعال نہیں ہیں تو انہیں درست کیا جائے، اور اگر مانیٹرنگ کا نظام نہیں ہے تو ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ایڈمنسٹریٹر سے وضاحت طلب کی جائے کہ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور وہ اپنی ڈیوٹی کیوں ادا نہیں کر رہے؟۔۔عوام کو بھی یہ احساس دلایا جائے کہ یہ سہولت ان ہی کے لیے ہے اور اسے نقصان پہنچانے سے ان کا ہی نقصان ہوگا۔
اگر یہی روش جاری رہی تو ایسے منصوبے صرف "کاغذی ترقی” کا حصہ بن کر رہ جائیں گے، اور عوام جن کے لیے یہ سہولتیں بنائی جاتی ہیں، وہ ہمیشہ محروم ہی رہیں گے۔
محکمہ کھیل اور متعلقہ حکام کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ صرف نئے منصوبے بنانے پر زور دینے کے بجائے پہلے سے موجود سہولیات کو بچانے اور ان کی بہتری پر توجہ دیں۔
قیوم سٹیڈیم کی اوپن ایئر جم کی حالت صرف ایک مثال ہے، لیکن یہ ایک بڑی انتظامی کوتاہی کی نشاندہی کرتی ہے جسے فوری طور پر دور کرنا ہوگا۔ اگر اب بھی آنکھیں نہ کھلیں تو عوام کو مزید ایسی سہولتوں سے محروم ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔