صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں انسانی اسمگلنگ کا اسکینڈل؟
جعلی کاغذات پر نیوزی لینڈ جانیوالے معاملے پر خاموشی، دو اہلکار غائب، سیاسی دباو سرگرم
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں انسانی اسمگلنگ کا اسکینڈل؟
جعلی کاغذات پر نیوزی لینڈ جانیوالے معاملے پر خاموشی، دو اہلکار غائب، سیاسی دباو سرگرم
پشاور – خیبرپختونخوا سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے جعلی سپانسرشپ لیٹرز کے ذریعے سکواش کھلاڑیوں کے روپ میں سات افراد کو نیوزی لینڈ بھیجنے کی کوشش کے اسکینڈل پر حیران کن خاموشی چھا گئی ہے۔
نہ صرف اس سنگین معاملے پر اب تک کوئی ایف آئی آر درج کی گئی، بلکہ دو اہلکار منظرعام سے غائب اور ایک اہم شخصیت سیاسی تعلقات کے ذریعے خود کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
ذرائع کے مطابق جعلی لیٹرز سابق ڈی جی اسپورٹس خالد محمود کے جعلی دستخط سے جاری کیے گئے، اور یہ لیٹرز صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے دفتر میں ہی تیار کیے گئے۔
ان میں ملوث دو اہلکار جیسے ہی معاملہ منظر عام پر آیا، بیرون ملک فرار ہو گئے۔ ایف آئی اے اور دیگر ادارے تاحال اس حوالے سے تحقیقات کررہی ہیں .
نیوزی لینڈ سفارتخانے کی جانب سے جب سپانسر لیٹرز کی تصدیق کیلئے ای میل بھیجی گئی تو صوبائی اسپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ایک افسر ای میل کے ذریعے تصدیق کر دی کہ یہ افراد آفیشلی سپانسر کیے جا رہے ہیں۔
بعد ازاں جب سفارتخانے نے موجودہ ڈی جی اسپورٹس سے رابطہ کیا — جو اس وقت بٹگرام میں ایک سپورٹس کمپلیکس کی سائٹ دیکھنے گئے تھے — تو انہوں نے فوری طور پر ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی، لیکن وہ بھی فائلوں میں دفن ہو گئی۔
اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جعلی دستاویزات میں صوبائی اسپورٹس ڈائریکٹریٹ کا نام، لیٹر ہیڈ اور جعلی دستخط استعمال کیے گئے۔
اس حوالے سے سابق ڈی جی اسپورٹس نے باقاعدہ ایف آئی اے کو تحریری شکایت دی اور مطالبہ کیا کہ معاملے کی مکمل چھان بین کی جائے، کیونکہ ان کے جعلی دستخط استعمال ہوئے، جو اندرونی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔
اس اسکینڈل کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی، لیکن بااثر افراد کے سیاسی رابطوںکے بعد اب یہ معاملہ بظاہر خاموش ہے۔ دوسری طرف، وزیر کھیل کا تاحال کوئی موقف سامنے نہیں آیا،
ادھر پاکستان سکواش فیڈریشن نے تمام سفارت خانوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ آئندہ صرف براہ راست تصدیق کے بعد ہی کسی کھلاڑی یا ٹیم سے متعلق کارروائی کی جائے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ کھیلوں کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ کا یہ سلسلہ نیا نہیں، بلکہ ایک منظم نیٹ ورک کافی عرصے سے سرگرم ہے۔ اس نیٹ ورک میں اسپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کچھ ملازمین کی نشاندہی ہو چکی ہے،
اور کئی کھیلوں کے حلقے ان ملازمین کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ کس نے کتنی جائیدادیں کتنے وقت میں بنائیں۔
یہ معاملہ نہ صرف کھیلوں کی ساکھ کو داغدار کر رہا ہے بلکہ انسانی حقوق اور ریاستی اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔