افغانستان میں مارشل آرٹس، امکانات، تقاضے اور حقیقت


رپورٹ ; غنی الرحمن
افغانستان میں مارشل آرٹس، امکانات، تقاضے اور حقیقت
دنیا کے بیشتر ممالک میں کھیلوں کی سرگرمیاں محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مضبوط معاشرتی ڈھانچے کی عکاس سمجھی جاتی ہیں۔ افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک میں جہاں زندگی کا ہر لمحہ غیر یقینی کیفیت کا شکار رہا ہے، وہاں کھیل نوجوانوں کے لیے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی سکون کا ذریعہ بھی ہیں۔
ان کھیلوں میں مارشل آرٹس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ کابل سے مزار شریف تک، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تائیکوانڈو، کراٹے، ووشو ،باکسنگ اور کک باکسنگ جیسے کھیلوں کی طرف راغب ہو رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کھیلوں کے فروغ کے لیے کلب یا اکیڈمی قائم کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟
افغانستان میں مارشل آرٹس کلب کے قیام کے لیے سب سے پہلا مرحلہ رجسٹریشن ہے۔ وزارت اطلاعات و ثقافت یا یوتھ اینڈ اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ سے باضابطہ اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہے۔
اس کے بعد متعلقہ فیڈریشن، جیسے افغان تائیکوانڈو فیڈریشن ،تائیکوانڈو، باکسنگ یا کراٹے فیڈریشن سے الحاق کرنا لازمی ہے تاکہ اکیڈمی کو آفیشل مقابلوں میں شرکت کا حق حاصل ہو سکے۔
اس کے علاوہ، کوچز کی قابلیت پر بھی خاص زور دیا جاتا ہے۔ کسی بھی کلب میں کم از کم ایک قابل انسٹرکٹر ہونا لازمی ہے، جس نے قومی یا بین الاقوامی سطح پر ٹریننگ مکمل کی ہو۔ بیشتر انسٹرکٹر ایران، پاکستان یا کوریا سے سرٹیفیکیشن حاصل کرتے ہیں۔
اکیڈمی کے لیے مناسب ہال، وینٹیلیشن، فرسٹ ایڈ سہولیات اور حفاظتی آلات جیسے ہیڈ گارڈ اور شین گارڈ فراہم کرنا ضروری ہے۔ افغان فیڈریشن کے مطابق ایک معیاری ہال کم از کم 400 سے 600 اسکوائر فٹ ہونا چاہیے تاکہ کھلاڑیوں کو ٹریننگ کے دوران مناسب جگہ میسر ہو۔
کابل جیسے بڑے شہروں میں اکیڈمی قائم کرنے پر اوسطاً 2000 سے 5000 امریکی ڈالر خرچ آتا ہے، جس میں کرایہ، میٹس، یونیفارم اور دیگر سامان شامل ہیں۔ تاہم مالی مشکلات کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی خدشات بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔ کچھ علاقوں میں کھیلوں کے اجتماعات خطرے سے خالی نہیں ہوتے، جبکہ خواتین کے لیے مارشل آرٹس اکیڈمیوں کا محدود ہونا ایک الگ مسئلہ ہے۔
ان تمام مشکلات کے باوجود افغانستان میں مارشل آرٹس کے فروغ کے روشن امکانات موجود ہیں۔ یہ کھیل نوجوانوں کو نہ صرف جسمانی مضبوطی بلکہ نظم و ضبط اور برداشت کا سبق بھی دیتے ہیں۔ اگر حکومتی سرپرستی، نجی اسپانسرشپ اور بین الاقوامی تعاون فراہم کیا جائے تو یہ کلب افغانستان کا نام عالمی سطح پر مزید روشن کر سکتے ہیں۔
کھیلوں کی دنیا میں مارشل آرٹس محض ایک کھیل نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے، جو حوصلہ، صبر اور عزم کا نام ہے۔ افغانستان کے نوجوان اگر ان اصولوں کو اپناتے ہوئے اس سفر کو جاری رکھیں تو آنے والا وقت ان کے لیے نئی کامیابیوں کے دروازے کھول سکتا ہے۔ بس ضرورت ہے ایک مستحکم نظام، حکومتی سرپرستی اور معاشرتی تعاون کی، تاکہ یہ خواب حقیقت کا روپ دھار سکے۔



