
جیولن تھرو میں پاکستان کا نیا باب – یاسر سلطان کا برونز اور ارشد ندیم کی انجری کے بعد واپسی
تحریر: کھیل دوست، شاھد الحق
ورلڈ ایتھلیٹکس کی اہمیت ; ورلڈ ایتھلیٹکس دنیا کا سب سے معتبر ادارہ ہے جو ایتھلیٹکس کے تمام بڑے مقابلوں اور رینکنگز کی نگرانی کرتا ہے۔ اس کے پلیٹ فارم سے نہ صرف اولمپکس بلکہ ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ جیسے ایونٹس منعقد ہوتے ہیں جنہیں کھیلوں کی دنیا میں سب سے زیادہ کریڈیبل اور معتبر مقابلے مانا جاتا ہے۔
یہ پلیٹ فارم کسی بھی کھلاڑی کو نہ صرف عالمی سطح پر متعارف کرواتا ہے بلکہ اس کی محنت، ٹریننگ اور کارکردگی کو عالمی معیار کے مطابق پرکھتا ہے۔
پاکستان ایتھلیٹکس کے لیجنڈز اور سنہری دور ; پاکستان کا ایتھلیٹکس کا ماضی انتہائی شاندار رہا ہے۔ کئی لیجنڈری کھلاڑیوں نے اپنے دور میں ملک کا نام روشن کیا اور پاکستان کو ایشیا بلکہ دنیا میں متعارف کرایا۔
عبدالخالق (Flying Bird of Asia) — 1950 کی دہائی میں ایشیائی سطح پر 100 میٹر اور 200 میٹر ریس کے فاتح، بھارتی لیجنڈ ملکہ سنگھ کو شکست دے کر تاریخ رقم کی۔
محمد یوسف — پاکستان کے پہلے بڑے اسپرنٹرز میں شامل، جنہوں نے 1954 کے ایشین گیمز میں تمغہ جیتا۔
محمد یونس — 1960 کی دہائی میں مڈل ڈسٹنس ریسز میں شاندار کارکردگی دکھائی۔
غلام ربانی اور انور سلطان — پاکستان کے نامور لانگ جمپرز اور ڈیکاتھلیٹس، جنہوں نے SAF گیمز اور ایشین مقابلوں
میں ملک کی نمائندگی کی۔
جبکہ مرزا خان، عقرب عباس اور جان پرمل نے بھی عمدہ کارکردگی دیکھائی
جان محمد اور شیر محمد — ٹریک اینڈ فیلڈ کے مایہ ناز نام، جنہوں نے پاکستان کو متعدد مقابلوں میں تمغے دلوائے۔
جبکہ محمد فیاض اور محمد صداقت بھی پاکستان اتھلیٹکس کے ٹاپ سٹارز میں شامل تھے
غلام عباس — 1990 کی دہائی میں 400 میٹر ہرڈلز کے ایشیائی چیمپیئن، جنہوں نے پاکستان کو سونے کا تمغہ جتوایا۔
شبانہ اختر — پاکستان کی پہلی خاتون ایتھلیٹ جنہوں نے 1996 کے اٹلانٹا اولمپکس میں شرکت کی اور یہ ساؤتھ ایشیئن ریکارڈ ہولڈر بھی ھیں۔
محمد شریف بٹ، جاوید اقبال اور محمد نواز — مختلف ڈسپلنز (ڈسکس تھرو، شاٹ پٹ اور ریلے ریسز) میں پاکستان کے لئے نمایاں خدمات انجام دیں۔
یہ سب ہیروز پاکستان ایتھلیٹکس کی تاریخ کا وہ روشن باب ہیں جنہوں نے آنے والی نسلوں کو خواب دیکھنے اور محنت کرنے کی ترغیب دی۔
فیڈریشن کی کاوشیں اور جنرل ساہی کی محنت ; پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن کے جنرل اکرم ساہی نے پچھلے کئی سالوں میں ایتھلیٹکس کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے انتھک محنت کی۔ ان کی سرپرستی اور وژن کی وجہ سے آج ارشد ندیم جیسے ہیروز سامنے آئے ہیں۔
ان کی رہنمائی اور تسلسل سے کی جانے والی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے ایتھلیٹس عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل بنے ہیں۔ اور امید کی جا سکتی ھے کہ ساہی صاحب کے لگے پودے انکے تجربات سے فیڈریشن میں مزید ھم آہنگی اور تسلسل قائم۔کریں گے۔
یاسر سلطان کی بڑی کامیابی ; ایشیئن تھرؤنگ چیمپیئن شپ میں پاکستان کے دوسرے نمبر کے جیولن تھرو کھلاڑی یاسر سلطان نے 76.43 میٹر تھرو کرتے ہوئے برونز میڈل جیتا۔ یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں صرف ایک نہیں بلکہ کئی ٹیلنٹ موجود ہیں۔
یاسر نے سپو فٹ یوٹیوب چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سال نومبر میں ہونے والی اسلامک گیمز میں بھی بہترین کارکردگی دکھانے کے لئے پرعزم ہیں۔
یاسر کا کہنا تھا کہ ارشد ندیم ہمارا فخر ہیں اور ان کے ساتھ جوائنٹ ٹریننگ کیمپ میں سیکھنے کا موقع ملنا میرے لئے اعزاز کی بات ہوگی۔ انہوں نے اپنے کوچ فیاض بخآری کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کوچنگ نے نہ صرف ان کی بلکہ ارشد بھائی کی ٹریننگ میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
یاسر سلطان کا انٹرویو دیکھنے کے لئے لنک پر کلک کریں: 👉 https://youtu.be/MygfdifR16c?si=E5sYbGMGt2tgYv7S
ارشد ندیم کی واپسی – ایک نئی امید
اولمپیئن ارشد ندیم انجری اور سرجری کے بعد بحالی کے عمل سے گزرنے کے بعد اب مکمل طور پر فٹ دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کی واپسی سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے ایتھلیٹکس شائقین کو امید ہے کہ وہ ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں بہترین کارکردگی دکھائیں گے۔ ارشد ندیم اب پاکستان کا وہ ستارہ ہیں جو دنیا بھر میں جگمگانے کے لئے تیار ہے۔
مسائل اور انکا حل: یاسر سلطان نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں بین الاقوامی معیار کے جیولن موجود نہیں ہیں اور اکثر وہ ارشد ندیم سے جیولن ادھار لے کر مقابلوں میں شریک ہوتے ہیں۔
انہوں نے مثال دی کہ بھارت میں نیراج چوپڑا کی کامیابی کے بعد ہر سال ’’جیولن ڈے‘‘ منایا جاتا ہے اور کئی کھلاڑی وہاں سے انٹرنیشنل رینکنگ میں شامل ہو چکے ہیں۔ پاکستان کو بھی اسی طرح عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
اب وقت ہے کہ کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ کوچز جیسے فیاض بخآری کو بھی مالی اعزازات اور ایوارڈز سے نوازا جائے۔
عالمی معیار کی سہولیات اور سازوسامان مہیا کیے جائیں۔ نوجوان ٹیلنٹ کو تربیت کے لئے بیرونِ ملک بھیجا جائے۔
دکھاوے کی بجائے عملی حکمتِ عملی تیار کی جائے۔
اگر یہ اقدامات کیے گئے تو آنے والے وقت میں پاکستان صرف ارشد ندیم ہی نہیں بلکہ کئی جواں سال ایتھلیٹس کے ذریعے عالمی درجہ بندی میں اپنی جگہ مضبوط بنا سکتا ہے۔



