
کھیلوں کا بجٹ اور فیس کلچر: ٹیلنٹ کی تلاش یا والدین پر بوجھ؟
تحریر ; غنی الرحمن
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر منصوبے اور پالیسیاں اپنی اصل روح کے مطابق نافذ نہیں ہوتیں۔ حکومتیں بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں، بجٹ میں اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں، لیکن عملی طور پر عام عوام اور بالخصوص نوجوان طبقہ ان منصوبوں کے ثمرات سے محروم رہتا ہے۔
یہی المیہ کھیلوں کے شعبے میں بھی نظر آتا ہے۔ نوجوان کھلاڑی، جو ملک کا مستقبل سمجھے جاتے ہیں، بجٹ کے اعلانات اور بلند بانگ دعوؤں کے باوجود بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر کھیلوں کے فروغ اور نئے ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے پہلے ہی خطیر رقم مختص کی جاتی ہے تو پھر بچوں سے ممبرشپ، داخلہ اور ماہانہ فیسوں کے نام پر رقم کیوں وصول کی جاتی ہے؟ کیا یہ کھلا تضاد اور نوجوان کھلاڑیوں کے خوابوں کے ساتھ ناانصافی نہیں؟
خیبرپختونخوا حکومت ہر سال کھیلوں کے فروغ اور نئے ٹیلنٹ کی تلاش کے نام پر بجٹ میں اربوں روپے مختص کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے کھیلوں کے گراؤنڈز، اکیڈمیز اور ٹریننگ سینٹرز قائم کیے جاتے ہیں، مگر عملی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ پشاور کے قیوم اسپورٹس کمپلیکس سے شروع ہونے والا "فیس کلچر” اب صوبے کے ہر ضلع تک پھیل چکا ہے۔
قیوم سپورٹس کمپلیکس، شاہ طہماس فٹبال اسٹیڈیم، چارسدہ، نوشہرہ، مردان، صوابی، سوات، ملاکنڈ، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ اور بنوں سمیت صوبے کے تمام اضلاع میں بچوں سے باقاعدہ طور پر ماہانہ فیس وصول کی جاتی ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے پہلے ہی اربوں روپے کھیلوں کے بجٹ میں رکھے جاتے ہیں، مگر اس کے باوجود والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کے لیے اضافی مالی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔
فیسیں وصول کرنے کے باوجود کھلاڑیوں کو معیاری سہولیات نہیں ملتیں۔ اکثر اوقات اکیڈمیز یا گراؤنڈز مختلف وجوہات کی بنا پر بند رہتے ہیں، جس کے باعث کھلاڑیوں کی تربیت متاثر ہوتی ہے۔ یوں والدین اپنی جیب سے پیسہ بھی دیتے ہیں اور بچے اپنے کھیل کے خواب پورے کرنے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
یہ سوال سب سے اہم ہے کہ حکومت کی جانب سے مختص اربوں روپے آخر کہاں خرچ ہوتے ہیں؟ اگر ان فنڈز کو شفافیت کے ساتھ استعمال کیا جائے تو کھلاڑیوں کو کسی بھی قسم کی فیس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے بجٹ کا بڑا حصہ کاغذی منصوبوں، ناقص پالیسیوں یا پھر غیر متعلقہ اخراجات میں ضائع ہوجاتا ہے۔
یہ صورتحال نوجوان کھلاڑیوں کے لیے نہ صرف مایوسی کا باعث ہے بلکہ ان کے کیریئر پر بھی براہِ راست اثر ڈالتی ہے۔ مالی بوجھ کے باعث کئی بچے کھیلوں میں حصہ نہیں لے پاتے، اور جو کھیلوں میں آ بھی جاتے ہیں انہیں مناسب تربیت اور مواقع نہیں ملتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے ٹیلنٹڈ کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کو عالمی سطح پر منوانے میں مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ حکومت اس تضاد پر سنجیدگی سے غور کرے۔ اگر کھیلوں کی ترقی کے لیے واقعی خطیر بجٹ مختص کیا جاتا ہے تو کھلاڑیوں سے کسی قسم کی فیس نہیں لینی چاہیے۔
شفاف پالیسی اور فنڈز کے درست استعمال سے نہ صرف کھلاڑیوں کو سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں بلکہ صوبے سے عالمی معیار کے اسٹارز بھی سامنے آسکتے ہیں۔ بصورت دیگر موجودہ نظام صرف والدین پر بوجھ ڈالنے اور ٹیلنٹ کو دبانے کے مترادف ہے۔



