کراچی کے قومی کھیل: رپورٹ کم، سیلفیاں زیادہ، اور میٹنگ پر میٹنگ کا عالمی ریکارڈ

کراچی کے قومی کھیل: رپورٹ کم، سیلفیاں زیادہ، اور میٹنگ پر میٹنگ کا عالمی ریکارڈ
مسرت اللہ جان
قومی کھیلوں کے لیے خیبرپختونخوا کی اولمپک ایسوسی ایشن اور اس کے ساتھ کھیلوں کی فیڈریشنز کا وفد کراچی جا پہنچا۔ مقصد بڑا سادہ ہے۔ ”گیمز مانیٹرنگ“۔ اب یہ مانیٹرنگ کس کی ہوگی یہ الگ بحث ہے۔
کچھ کہتے ہیں میدانوں کی مانیٹرنگ، کچھ کہتے ہیں کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی، اور کچھ لوگ تو پورے یقین سے کہتے ہیں کہ اصل مانیٹرنگ کراچی کے ہوٹلوں کے ناشتے اور ڈنر کے مینو کی ہونی ہے تاکہ اگلی بار یہ غلطی نہ ہو کہ دیسی گھی والا پراٹھا نہ مانگا جائے۔
وفد میں شامل ایک رکن کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد صرف اور صرف کھیلوں کی بہتری ہے۔ جب پوچھا گیا کہ آپ کس کھیل سے تعلق رکھتے ہیں تو انہوں نے مودبانہ انداز میں جواب دیا ”درست بتایا جائے تو کسی سے نہیں“ لیکن انہوں نے وضاحت کی کہ وہ میٹنگ مانیٹرنگ کے ماہر ہیں۔ یعنی کراچی کا ٹرپ ان کا ٹیسٹ میچ ہے اور ہر میٹنگ ون ڈے نہیں، فل باقاعدہ پانچ روزہ سیریز ہے۔
کراچی پہنچتے ہی شہر سے زیادہ جس چیز نے وفد کو متاثر کیا وہ ہوٹل کی لابی میں لگا ایک خوبصورت فریم تھا جس میں لکھا تھا: ”میٹنگ ان پراگریس“۔ خیبرپختونخوا کے کچھ اراکین نے اس فریم کے ساتھ تصویریں بنا کر پوسٹ بھی کیں اور لکھا ”ہم کھیلوں کی بہتری کے لیے میٹنگ میں شریک“۔ حالانکہ میٹنگ ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی اور یہ تصویر صبح کے ناشتہ کے بعد لی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ اس دورے کے بعد رپورٹ کون بنائے گا۔ کیا صرف کھلاڑیوں کی غلطیاں لکھی جائیں گی یا پہلی بار ذمہ دار اپنے کردار پر بھی روشنی ڈالیں گے۔
کیونکہ شائد اگلی مرتبہ اگر نیشنل گیمز خیبرپختونخوا میں ہوں تو یہ کہنا آسان ہوگا کہ سندھ اولمپک ایسوسی ایشن نے کام بہتر نہیں کیا تھا۔ مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ سندھ والوں نے بھی پچھلے دس سال سے یہی جملہ تیار کیا ہوا ہے کہ غلطی خیبرپختونخوا کی تھی۔
ہم کراچی کے گیمز سے صرف یہ سیکھ کر واپس نہیں آ سکتے کہ ان کے ہوٹل بڑے ہیں، ان کے بسوں کی AC زیادہ ٹھنڈی ہے یا ان کے پوڈیئم کا سائز KP کے پوڈیئم سے بڑا ہے۔
ضرورت ہے کہ جس کھیل کا جس نمائندے نے پیچھا کیا ہے وہ کم از کم اتنا لکھ کر واپس آئے کہ کھلاڑیوں کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کھلاڑیوں کے جوتے کھلے تھے یا فیڈریشن کا ڈسپلن کھلا تھا۔ واپسی پر رپورٹ ہونی چاہیے کہ مسئلہ سندھ کا ٹریفک تھا، یا ہر بار کی طرح فیڈریشن کی ”منسٹری آف کچھ نہ کرو“ تھی۔
یہ بھی لازم ہے کہ KP سپورٹس ڈائریکٹریٹ اپنا کردار ادا کرے۔ سندھ والوں نے کیا کیا غلط کیا صرف یہی نہیں لکھنا چاہیے۔ اپنی غلطیوں کا ذکر بھی کر لیا جائے تو شاید کچھ بہتری ممکن ہو۔ کیونکہ تصویر کھینچ کر، ویڈیو بنا کر، ڈانس کر کے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ گیمز کامیاب ہوگئے۔ اگر ایسا ہوتا تو ٹک ٹاک اسٹار اب تک اولمپک گولڈ لے چکے ہوتے۔
وفد میں شامل کئی افراد کا اصل کام کراچی کے موسم کی رپورٹ تھی۔ کچھ نے بتایا کہ ہوا خشک ہے، کچھ نے بتایا کہ ہوٹل کی چائے کمزور ہے۔ مگر کھلاڑیوں کی کارکردگی پر سوال کرنے کی ہمت نہیں۔
کیونکہ کھلاڑی سمجھتے ہیں اگر زبان کھولی تو اگلے ٹور میں نام لسٹ سے نکل جائے گا۔ کھلاڑی کو معلوم ہے وہ ملک کے لیے کھیلتا ہے مگر حساب کتاب ان لوگوں کو دینا پڑتا ہے جو کھیل کے قریب سے بھی نہیں گزرے۔
میدان میں پسینہ بہانے والوں کے پاس بولنے کا اختیار نہیں اور جو لوگ اے سی کمروں میں بیٹھ کر کھیلوں کی بہتری کی میٹنگ کرتے ہیں انہی کے پاس فیصلے کا اختیار ہے۔ کھلاڑی ہر بار نئے وعدے سن کر گھر چلے جاتے ہیں اور فیس بک اور واٹس ایپ پر ایک ہی پوسٹ چلتی رہتی ہے کہ ”کھلاڑی ہمارا سرمایہ ہیں“۔ مگر سرمایہ ہمیشہ بینک میں ہوتا ہے جیب میں نہیں۔
اگر یہ دورہ واقعی سنجیدہ ہے تو ہر کھیل کے حوالے سے الگ رپورٹ تیار کی جائے۔ پہلی بار لکھا جائے کہ کس کوچ نے کیا کمی چھوڑی، کس کھلاڑی کا نظم ڈھیلا تھا، کس افسر نے صرف تصویریں بنوائیں۔ اور یہ بھی لکھا جائے کہ بعض کام صرف سندھ والوں کی غلطی نہیں تھی۔
ممکن ہے کچھ غلطی خیبرپختونخوا والوں کی بھی رہی ہو۔ایسا کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ممکن ہے۔ جیسے کھلاڑی اپنے کوچ سے اختلاف کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اسی طرح کوچ اور افسران بھی سچ بولنے سے گھبراتے ہیں۔
لیکن سچ بولنے کے لیے کسی فنڈ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح کراچی میں بجلی کا مسئلہ ہے مگر روشنی پھر بھی ہے، اسی طرح اگر نیت صاف ہو تو کھیلوں کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔
تصویریں لینا جرم نہیں۔ ویڈیو بنانا غلط نہیں۔ لیکن جب اصل سوال پوچھا جائے کہ ”کھیل میں کیا بہتری ممکن ہے“ تو جواب خاموشی نہ ہو، یا دوبارہ میٹنگ کی تاریخ نہ دے دی جائے۔ ہر دورے کے بعد ایک فائل بند ہو جاتی ہے اور اگلی فائل کھل جاتی ہے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ کھیلوں کی دنیا مزاح کا پلیٹ فارم نہیں۔ جہاں کمیٹی بنے، ڈیسک بنے اور نتیجہ کبھی سامنے نہ آئے۔
آخر میں KP کے وفد کے لیے ایک مشورہ ہے۔ اگر کراچی سے کچھ نہیں سیکھا تو کم از کم یہ ضرور سیکھ لیں کہ سمندر کے پاس بیٹھ کر سنجیدہ بات بھی ممکن ہے۔ اور دہائیوں سے چلتے بہانے اب سمندر میں پھینک کر واپس آئیں۔
کیونکہ اگر سب کچھ صحیح ہے پھر سوال ہے کہ پاکستان کے کھلاڑی عالمی مقابلوں میں کیوں نہیں چمکتے۔اور اگر سب کچھ غلط ہے تو پھر یہ دنیا کا واحد شعبہ ہے جس میں غلطی بھی تسلسل کے ساتھ کی جاتی ہے اور اصلاح بھی میٹنگ کے ایجنڈے میں رکھی جاتی ہے، مگر گفتگو چائے ختم ہونے تک ہی رہتی ہے۔
کھیلوں کے نام پر یہ تماشہ ختم کرنا ہوگا۔ سیلفیوں سے زیادہ رپورٹیں اور نعرے سے زیادہ نتائج دکھانا ہوں گے۔ ورنہ اگلی بار بھی کراچی کے بجائے مسئلہ وہی ہوگا۔ جو گھر سے چلا تھا، وہی گھر لوٹا۔ صرف البم میں تصویروں کا اضافہ ہو گیا۔


