ایک طرف تو دنیا بھر میں کورونا کا رونا رویا جا رہا ہے مگر ساتھ ہی کافی مکتبہ فکر ان باتوں کی مسلسل نشاندہی میں مصروف ہیں کہ کورونا اور لاک ڈائون کے تمام تر معیشتی و سماجی نقصانات کے باوجود مذہب اور انسانیت کے پہلو سے قطع نظرکافی فوائد بھی ہیں.
میری گزشتہ تحریر”کورونا کے کھیل اور ان سے متعلقہ چیزوں پر مثبت اثرات” کے کافی نقاط مثلا گرائونڈز کا لش گرین ہونا, کھلاڑیوں کا مسلسل مقابلوں سے نجات کی وجہ سے اسٹریس کا کم ہونا,چوٹوں سے مکمل بحالی, اوزون کی تیزی سے قدرتی مرمت وغیرہ جیسے نقطوں کے علاوہ مزید یہ ہے کہ ہم جان گئے ہیں کہ وہ کون ہیں جو تمام تر احتیاطی تدابیر کے ہمارے ساتھ پہلے کی طرح ہیں اور کون ڈر کر محتاط ہوکر ملنساری بھول بیٹھا ہے.
دراصل انسان کو اپنی قدروقیمیت کا زیادہ تر اس وقت پتہ چلتا ہے کہ جب وہ مشکلات میں گھر ہوا ہو کہ کون کون مخلص ہے اور کون اسے دھوکہ دے رہا ہے.ایک مثل عام طور پر اس موقع کے لیئے موزوں ہے, "تھوک لگانا”.اسے عام طور پر دھوکہ دہی کے زمرے میں لیا جاتا ہے اور اگر بات کرکٹ بال پر تھوک لگانے کی ہو تو وہ بھی مخالف بیٹسمین کو دھوکہ دینے کے لیئے ہی لگایا جاتا ہے.حیرت کی بات یہ ہے کہ قدیم دور سے قطع نظر اس سائنسی دور میں یہ جانتے ہوئے بھی کہ زیادہ تر بیماریاں انسانی تھوک اور سانس کے زریعے پھیلتی ہیں پھر بھی کرکٹ بال پر کم از کم ایک ٹیم کے آدھے سے زیادہ کھلاڑی تھوک لگانے کے عمل کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں اور بقیہ کھلاڑی, امپائرز اور کچھ تماشائی بھی اس تھوک زدہ بال کو ہاتھوں میں ضرور لیتے ہیں.یہ کورونا کا ہی تحفہ ہے کہ کرکٹ حکام بال کو چمکانے کے لیئے تھوک لگانے پر پابندی لگانے اور نئے طریقے کو وضع کرنے کا سوچ رہے ہیں جس سے کھلاڑی اور ان سے وابسطہ افراد تھوک سے پیھلنے والی بیماریوں سے بچیں گے اور ممکن ہے کہ بائولرز کے حربوں اور اسکے بیٹسمین پر خطرناک اثرات میں بھی کمی آجائے جوکہ تھوک لگانے سے وہ کرتا ہوگا.اس ضمن میں ممکن ہے کہ بال کو کسی چیز سے رگڑنے کی اجازت دے دی جائے اور تھوک لگانے پر مکمل پابندی لگادی جائے.
کھیلوں کو بلا شبہ فرصت کے وقت کے استعمال کا بہترین زریعہ تصور کیا جاتا ہے تاہم اب تو فرصت ہی فرصت ہے مگر کھیل کود بند ہیں اور مصروف زندگی کے باعث جو لوگ فرصت کے وقت کو کھیل کود میں صرف کرتے تھے وہ تمام تر وقت اپنی فیملی کے ساتھ ہیں اور دوری کم ہونے کی وجہ سے قوی امکان ہے کہ کافی گھریلو مسائل کم ہوئے ہونگے.
رہی بات دیگر سماجی مسائل کی تو ہمیں تو پہلے ہی لائنوں میں لگنے کا عادی بنا دیا گیا تھا.ایک تو وہ لائن تھی جو کبھی بلو کے گھر جانے کے لیئے گا گا کر لگوائی جارہی تھی جبکہ دوسری کوئی چیز بانٹنے کے لیئے لگوائی جاتی ہیں.پیسے کسی کو دینے کے لیئے لائنیں لگنا عام سی بات ہے مثلا بینک کے باہر کی لائنیں جو بل جمع کرانے یا چالان جمع کرانے کی لائنیں وغیرہ مگر کورونا کے باعث اب تو خریداری کرنے کے لیئے ہر مرکز کے باہر لائنیں لگی نظر آرہی ہیں اول الزکر لائینوں میں دھکم پیل, لڑائی جھگڑے اور دوسرے سے کسی کی سفارش پر آگے بڑھ جانا نظر آتا تھا مگر یہ کورونا کی لائن ہے یہاں آپ کو ڈر ہے اور سماجی فاصلے کو برقرار رکھنا سکھایا جارہا کہ اور امید ہے کہ کورونا سے نجات کے بعد یہ نظم و ضبط ہمیشہ کے لیئے برقرار رہے گا.اس وقت حکومت کو چاہیئے کہ روزانہ کے کمانے والوں کی ضروریات کا منظم انداز میں خیال رکھیں تاکہ وہ بھی ہر روز باہر نہ نکلیں اور لاک ڈائوں کے زیادہ سے زیادہ فوائد جلد ازجلد حاصل ہوسکیں