مسرت اللہ جان
صوبے کے بھوکے ننگے عوام کو کھیلوں کی سرگرمیوں سے اب اتنی دلچسپی نہیں رہی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی کھلاڑی کے کھلاڑیوںنے صوبے میں ان کا وہ حشر کردیا ہے کہ اب بہ مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بلکہ بعض دل جلے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ” خدائے گو پہ جوند دے ستومانہ کڑو” شکر ہے کہ سوشل میڈیا کا جس پر کم از کم لوگ اپنے دل کی بھڑاس تو نکال لیتے ہیں ورنہ تو حال تو یہ ہے کہ سرکار ی پروپیگنڈے کیلئے استعمال ہونیوالے ادارے کے ملازمین یعنی سرکاری کلرک جنہیں تنخواہیں صرف ا س بات کی ملتی ہے کہ آپ ہمارے ” بول و براز” کو ” گوبھی کا پھول” ثابت کرے اور لوگوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھیں تو ان میں بعض تو ایسے ہیں کہ وہ سرکار کے ” بول و براز” کو سب کے سامنے منہ میں لاکر ذائقہ چیک کرتے ہیں اور پھر سٹیج پر اعلان کرتے ہیں کہ یہ تو گوبھی کا پھول ہے ہی لیکن اسکا ذائقہ بالکل ” پھولوں” کی طرح ہے اور میں اس ذائقے کو چیک کرچکا ہوں یعنی دو ہاتھ آگے چلے جاتے ہیں. خیر یہ ان کی مجبوری بھی ہے کیونکہ تنخواہیں اور گرانٹس اس بات کے ملتے ہیں..
خیر چھوڑیں بات کھیلوں سے شروع ہو کر کہیں اور نکل گئی ، خیبر پختونخواہ میں کھیلوں کے میدان بیشتر سرکار کے ہیں لیکن ان سرکاری میدان میں کھیلنے کیلئے فیس مقرر ہے ، ایسے حال میں جب لوگوں کے پاس کھانے کیلئے خوراک نہ ہوں وہ اپنے بچوں کیلئے کھیلوں کی فیس کی ماہانہ طور پر کیسے ادا کرینگے یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تو سرکار کے کرسی پر بیٹھے کر تنخواہ لینے والوں کے پاس ہے لیکن عام آدمی کے پاس نہیں ، سکواش کے ریکٹ ،شوز خریدنا عام آدمی کی بس کی بات نہیں ، ٹیبل ٹینس کے ریکٹ ، بال تک خریدناعام بندے کی بس کی بات نہیں ، رہی ہاکی ، فٹ بال ، بیڈمنٹن ، اتھلیٹکس سمیت دیگر کھیلوں کی تو ان کیلئے ماہانہ فیس مختلف گرائونڈز میں سرکار نے اتنی لگا دی کہ اب کھیلوں کے میدانوں کی طرف آنے کا کوئی سوچ نہیں سکتا ، پانچ سو سے ایک ہزر روپے تک ادائیگی پر ماہانہ کلب میں انٹری ملتی ہے سرکار کی مدح سرائی کرنے والے بعض ڈھولچی تو یہ یہاں تک کہتے ہیں کہ یورپ میں اسی طرح ہوتا ہے ، بالکل ٹھیک یورپ میں اسی طرح ہوتا ہوگا لیکن یہ پاکستان ہے ، وہاں پر سرکار بچوں کی تعلیم تو فری دیتی ہے یہاں پر کیا ہے ،جب حکومت پر ذمہ داری کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے ہے کہ یورپ کی مثالیں نہ دیں یہ پاکستان ہے اور جب عوام کے جیبوں سے پیسے نکالنے کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یورپ میں ایسے ہوتا ہے اور یورپ کے ان مزوں کو لوٹنے کیلئے ڈھولچی اپنے بچوں کو بیرون ملک بھی بھجو ا دیتے ہیں.
خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ جس کا اضافی چارج وزیراعلی خیبر پختونخواہ کے پاس ہے میں ان کی دلچسپی اتنی ہے کہ اپنے سابقہ دور میں جب وہ صرف وزیر کھیل تھے نے کھیلوں کی رقم اپنے اکائونٹس میں ڈال دی تھی بعد میں جب مسئلہ بنا تو یہ کہہ کر واپس کردی گئی کہ یہ سب غلطی سے ہوا تھا. خیر انسان غلطی کا پتلا ہے. لیکن اب تو ماشاء اللہ وہ وزیراعلی بھی ہے کھیلوں کی وزارت کا اضافی چارج بھی رکھتے ہیں کبھی انہوں نے اپنی وزارت کی دوغلی پالیسی کا پتہ کیا ہے .کیونکہ یہاں پر تو غلطی کا پتلا کے بجائے پتیلے بلکہ ڈرم کہنا ٹھیک ہوگا.
دوغلی پالیسی کھیلوں کے حوالے سے ایسی کہ ایک طرف کھیلوں کی سہولتوں سے بہرہ ور ہونے کیلئے بچوں سے انٹری کارڈ کے نام پر فیس وصول کی جارہی ہیں تو دوسری طرف کھیلوں کے ایک ہزار میدانوں کے نام پر ایک پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے جس میں مختلف جگہوں پر اوپن ائیر جیم بنائے جارہے ہیں اکیس لاکھ روپے میں بننے والے ان جیم کی مشینوں کا حال کیا ہے یہ تو واقفان حال بہتر جانتے ہیں کیونکہ ایک ماہ کے دوران مختلف جگہوں پر انسٹال کئے جانیوالے مختلف ائیر جیم کی مشینیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی باڈی بلڈنگ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر شخص کے مطابق جو اکیس لاکھ روپے میں سرکار کو پڑا ہے وہ وہ زیادہ سے زیادہ دس لاکھ روپے میں بن سکتا ہے اور وہ بھی اس سے بہتر ، یہ وہ سوال ہے جس پر کوئی بات کرنے کو تیار ہی نہیں ، چلیں ، کرسی کا نشہ بھی ہوتا ہے لیکن یہ کیسا نشہ ہے کہ غرب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ اتنے دھڑلے سے ایسا اڑایا جارہا کہ ایبٹ آباد کے کنٹونمنٹ بورڈ میں واقع لیڈی گارڈن کے اوپن ائیر جیم کی کچھ مشینیں غائب ہوگئی جس پر صوبائی ڈائریکٹریٹ نے ڈی پی او ایبٹ آباد سے رابطہ کیا ہے کہ چوروں کا پتہ چلائے یعنی اب پولیس جرائم کے ساتھ ساتھ اوپن ائیر جیم جو کھلے عام بنائے گئے ہیں کی سیکورٹی کیلئے تعینات ہوگی.
مزے کی بات تو یہ ہے کہ اوپن ائیر جیم نتھیا گلی میں بھی انسٹال کیا گیا ہے ایک طرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا موقف ہے کہ ہم غریب عوام کو کھیلوں کی سہولت فراہم کررہے ہیں اور یہ جیم بنا رہے ہیں لیکن نتھیا گلی میں اوپن ائیر جیم کا کیا تک ہے ، کیونکہ نتھیا گلی جانیوالے کتنے لوگ ہیں ، عام آدمی کتنے ہیں ، سال میں غلطی سے ایک مرتبہ عیدین یا تہواروں پر جانیوالے عام آدمی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں نہ ہی مقامی افراد کو کیونکہ وہ تو پہاڑوں پر اترنے چڑھنے کے اتنے عادی ہوتے ہیں کہ انہیں باڈی بلڈنگ کا شوق نہیں ہوتا ہاں.. اس کا فائدہ ایلیٹ کلاس کے بچوں کو ہوتا ہوگا کیونکہ مہینے میں ایک یا دو مرتبہ یا پھر گرانٹس ملنے پر کچھ لوگ نتھیا گلی ضرور نکل جاتے ہیں – اس بارے میں ایک صاحب کا موقف رہاکہ ہم جب جاتے ہیں تو بچے بھی یہاں پر انجوائے کرتے ہیں . یعنی ایک ہزار گرائونڈز کا یہ منصوبہ بھی ایلیٹ کلاس تک ہی ہے ،ایبٹ آباد اور پشاور ، مردان و سوات کے مخصوص علاقوں تک محدود اس پراجیکٹ کو اگر سکولوں کی سطح تک ہی رکھاجائے تو اس سے نہ صرف سرکاری سکولوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں بڑھیں گی بلکہ صوبے کے تمام اضلاع کو یکساں مواقع ملیں گے اور نرسری سطح پر نوجوان کھلاڑی آئیں گے.لیکن اگر یہ منصوبہ سکولوں تک رہ گیا تو پھر.
کھیلوں کے میدان کے پراجیکٹ میں زمینوں کے کھاتوں سے لیکر مشین انسٹالیشن تک میں ” کچھ میرا اور کچھ تیرا” کاموقع بھی نہیں ملے گا . ویسے کچھ میرا اور کچھ تیرا کے اگلی قسط میںڈی آئی خان سے پشاور تک سفر اور اب بنوں تک کے سفر کی کہانی.. اگلے کالم میں انشاء اللہ