صوبائی دارالحکومت پشاورکیلالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں نئے ٹرف بچھانے کامنصوبہ پشاورمیں ہاکی ٹیلنٹ کے خاتمے کاباعث بن گیا،ٹرف لانے سے قبل ہی پراناٹرف اکھاڑکرکھلاڑیوں کے پریکٹس کاسلسلہ بندکردیاگیاجسکے نوجوان کھیل کے بجائے نشے دیگرغلط سرگرمیوں میں مشغول رہنے کاخدشہ ہے۔محکمہ کھیل حکام کاکہناہے کہجنوری میں شروع ہونیوالا یہ منصوبہ مارچ میں مکمل ہوگا۔صوبائی ہاکی ایسوسی ایشن کی مشاورت کے بغیرجاری اس منصوبے سے کھلاڑیوں اورخودہاکی ایسوسی ایشن کوشدیدمشکلات کاسامناکرناپڑرہاہے،کیونکہ باہمی مشاور ت کے بغیر کام کے آغازسے درجنوں کھلاڑیوں کاروزمرہ پریکٹس کاخاتمہ ہوابلکہ ایسوسی ایشن کے مقابلوں کاسالانہ شیڈول بھی بری طرح متاثررہاہے۔پشاورسپورٹس کمپلیکس میں واقع لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں روزانہ کی بنیادپرایک بڑی تعدادمیں جونیئروسینیئرکھلاڑی مختلف سیشنزمیں پریکٹس کرتے نظرآتے تھےاورہروقت اس گراونڈمیں ایک رونق ہواکرتی تھی،لیکن معلوم نہیں اسے کس کی بری نظرلگ گئی اوردیکھتے ہی دیکتھے یہ ہاکی گرائونڈویران پڑھ گیا
۔اب یہاں پرٹرف ہے نہ کھلاڑی بلکہ سناہے کہ اس گرائونڈپرکھیلنے والے بچوں کااب کوئی آتاپتہ نہیں،اس حوالے سے صوبائی ہاکی ایسوسی ایشن کے صدراورسیکرٹری بلکہ قومی کھیل ہاکی سے لگائورکھنے والی شخصیات کوسخت پریشانی لاحق ہیں کہ وہ بچے جنہیں کئی سالوں کی جدوجہدسے اکٹھے کرکے گرائونڈآنے پرمجبورکیئے تھے کہاں اورکس حال میں ہونگے،ایسوسی ایشن کی عہدیداروں کاکہناہے کہ وہ انہیں اپنے بچوں کی طرح عزیزتھے ان کی پریکٹس کاخیال رکتھے تھے بلکہ انکی بہترخوراک کی بھی فکرتھی اوراچھی خوراک کابھی بندوبست کیاکرتے تھے۔انہیں یہ خدشہ ہے کہ اللہ نہ کریں وہ بچے نشے کی طرف انوال نہ ہوئے ہوں ،کیونکہ ملک کے دیگرشہروں کی طرح پشاورشہری اوردیہی علاقے اس وقت آئس ودیگرنشے کا شکارہیں بلکہ ہماری تعلیمی ادارے بھی اس لعنت کے شکنجے میں ہیں۔اس حوالے شعبہ تعلیم،صحت اورکھیلوں کے شعبوں سے وابستہ شخصیات کاکہناہے کہ دورحاضرمیں کھیل ایک ایساشعبہ ہے جن پرتوجہ دینے سے معاشرے پراچھے آثرات مرتب ہوسکتے ہیں کیونکہ یہی وہ محاظ یےجن کے استعمال سے ہمارے ملک میں پائی جانیوالی تمام برائیوں سے چھٹکاراحاصل کرسکتے ییں،ملک بھرکی طرح خیبر پختونخواکے اندرجب تخریب کاری ودہشت گردی کادوردوراتھااورہرطرف آگ بڑھک رہاتھا،میں نے بطور سپورٹس رپورٹرروزنامہ مشرق مین آرٹیکل لکھاتھا کہ ان حالات میں کھیلوں کا محاظ استعمال کرناچاہیئے تو حکومت وقت نے بھی کھیلوں کا محاظ کااستعمال کرتے ہوئے بلاتاخیر مقابلے کروائے گئے اور نوجوان نسل کھیلوں میں مصروف رہے،آج سے چند سال قبل تو دہشت گردی تھی اوراب ہرطرف نشے کی لعنت پھیل گئی یے،ان ساری صورت سے محکمہ کھیل کے حکام اچھی آگاہ ہے لیکن جان بوجھ کرکھیلوں کے شعبے میں آئے روزایسے ایسے کام ہورہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی یے
کھیل کاشعبہ صحت ودوسرے شعبوں سے بھی بہت آہم ہے بلکہ اس پرتوجہ دینے سے شعبہ تعلیم اورکاروباری شعبے بھی فروغ پاسکتی ہیں۔لیکن بدقسمتی سے محکمہ کھیل کاکوئی والی وارث نہیں ہے
وزیراعلیٰ محمودخان نے اسے اپنے پاس رکھاہے جن کااس جانب کوئی توجہ نہیں،یہاں کے لوگ انہیں سب اچھاکی رپورٹ دیکرخودمزے کررہے ہیں،ایک ہی ایونٹ کے سامان کی خریداری کیلیئے کئی کئی بارٹینڈرہوتے ہیں، پشاورسپورٹس کمپلیکس کے انتظامی اموراس کام سےنابلد لوگوں کے سپردکرکے اسی کمپلیکس کے ماحول کودائوپرلگاکر کھلاڑیوں کوطرح طرح کی مشکلات میں دھکیلا گیاہےبلکہ دوسرے اضلاع کے سپورٹس کمپلکس کے انچارج بھی اس طرح ہیں کہ جن میں اکثریت ذاتی مفادات اوراپنی آفسری کوبیچارے ملازمین وکھلاڑیوں پرفروخت وبرتری رکھے ہوئے ییں اوریہی نہیں بلکہ ہردوسال کے بعداس انتہائی اہم لیکن بے یارومددگارمحکمے میں آنے والے نئےسرپرست یعنی ڈی جی بھی کئی خوش آمدی ونام نہاد آفسران کی مشاورت پرچلتے ہوئے اقدامات اٹھاتے ہیں۔جس کی وجہ سے شعبہ کھیل روبہ زوال ہے اورصورتحال ہرسال،ماہانہ بلکہ روزانہ کےحساب سے ابترہوتی جارہی ہے۔آج ہاکی کاگرائونڈجوکھنڈرکی شکل اختیارکرچکاہے یہ بھی انہی عقل سے پیدل اورآنکھوں پرخودغرضی کی پٹھیاں باندھ نے والوں کے باعث ہے۔
یہ گرائونڈجوکبھی آبادتھاجہاں پروقت کھلاڑی کھیلتے نظرآتے تھے اب وہی بچے شایدکسی نشے یاکسی دوسری غلط وبری صحبتوں میں مصروف ہونگے ،اس ساری صورتحال کے ذمہ داری بھی انہیں عقل سے پیدل آفیسرپرعائدہوتی ہے جنہوں نے اپنی آنااوربے جامخالفت میں آکراس بارونق میدان کومتعلقہ شخصیات کےبغیرمشاورت اوروقت سے قبل ہی ویران کردیا،کیونکہ لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں نیاٹرف بچھانے کاکام مکمل کرنے کیلئے تین ماہ یعنی دیئے ہیں اورجوصورتحال چل رہی ہے خدشہ ہے کہ یہ منصوبہ مقررہ مدت میں بھی مکمل نظرنہیں آتا۔