تحریر ۔ مسرت اللہ جان
پشتو زبان کی ایک مثل ہے چہ دا بی بی خپل ئی نو دننہ رازہ او کہ دا صاحب خپل ئے نو باہر کینہ.. یعنی اگر آپ بی بی جی کے رشتہ دار ہیں تو آپ اندر آجائیں اور اگر آپ صاحب کے رشتہ دار ہیں تو آپ باہر بیٹھ جائیں.سمجھنے والوں کیلئے اس میں بڑی نشانیاں ہیں لیکن اگر کوئی سمجھے تو .اگر کو سمجھ کر اپنے آپ کو انجان بنائے تو پھر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں.اب آتے ہیں اپنے اصلی موضوع پر یعنی کھیلوں کے میدان پر ..
پڑھنے والے بھی حیران ہونگے کہ صاحب اور بی بی سے آغاز ہوگیا اور اب موضوع کھیل کی طرف کیسے کیا جارہا ہے تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں جس طرح کھیل اور ایسوسی ایشن کا کردار ہیں بس اس طرح ہم بھی صاحب ، بی بی سے آغاز کرکے کھیل اور ایسوسی ایشن کی طرف آرہے ہیں .
کسی بھی ایسوسی ایشن کا بنیادی مقصد مشترکہ طور پر ایک مقصد کیلئے کسی گروپ/ گروہ اور شخصیات کیلئے ایک ساتھ ہونا ہے تقریبا ہر شعبے میں ایسوسی ایشنز موجود ہیں کھیلوں کے میدان میں بھی ایسوسی ایشنز موجود ہیں -لیکن سوال یہ ہے کہ ان ایسوسی ایشنز کا بنیادی مقصد کیا ہے اور کیا یہ اپنے مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہیں – اس بارے میں بات کرنا ہر کوئی جرم سمجھتا ہے- کیونکہ کھیلوں کے شعبے سے وابستہ افراد ایسوسی ایشن کے کسی بھی شّخصیت کو ناراض کرنا نہیں چاہتا لیکن کیا لوگوں کی ناراضگی اس بات سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ آپ سچ نہ بولیں ، نہ لکھیں اور نہ ہی کھیل کے میدان میں غریب کھلاڑیوں کیساتھ ہونیوالی ناانصافی پر آنکھیں بند کرلیں-
مجھے یاد ہے کہ 1997 میں روزنامہ آج میں سپورٹس کے شعبے کیلئے میں کام کرتا تھا اس وقت سے مخصوص افراد خیبر پختونخواہ میں مختلف کھیلوں کے ایسوسی ایشن کے عہدوں پر براجمان تھے آج تئیس سال گزرنے کے بعد بھی وہی لوگ براجمان ہیں ہاں اتنی سی تبدیلی آگئی ہیں کہ وہی مخصوص لوگ جو کھیلوں میں ایسوسی ایشن کے اہم عہدوں پر قابض ہیں پابندیوں سے بچنے کیلئے نت نئے عہدوں پر آگئے ہیں- جب ان میں سے کسی سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیوں اس عہدے پرفائز ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ہم نے بڑی محنت کی ہے- بھائی آپ نے محنت کی ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ اس شعبے کے ٹھیکیدار ہیں – او راگر محنت کی بھی ہے تو اس کا صلہ بھی لے لیا ، کبھی فنڈز کی صورت میں ، کبھی ٹورز کی صورت میں اور کبھی دیگر اپنے بندوں کو باہر کھیل کے نام پر ہیومن ٹریفکنگ کرکے. اس میں کس پر احسان کیا ہے.
کھیلوں کے شعبے سے وابستہ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا یہ موقف ہے کہ ان کا الحاق بین الاقوامی اداروں سے ہے اس لئے ان سے پوچھ گچھ نہ کی جائے- کچھ لوگ یہ بیان دیتے ہیںکہ کھیلوں کے ایسوسی ایشن این جی اوز کی طرح کا م کرتی ہیں. اول تو یہ بات غلط ہے لیکن بالفرض محال اگر ٹھیک بھی ہے تو پھر این جی اوز تو غیر سرکاری ادارے ہوتے ہیں اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کیساتھ رجسٹرڈ ہوتے ہیں ان کے دفاتر ہوتے ہیں ان کی سیکورٹی کلیئرنس ہوتی ہیں ان کا آڈٹ ہوتاہے اور سب سے بڑی بات کہ وہ حکومت سے کچھ نہیں لیتے – بین الاقوامی ڈونرز اداروں سے رابطے کرکے نت نئے ایشوز کو ہائی لائٹ کرتے ہیں ، ان کی وجہ سے قوانین بنتے ہیں اور لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں.. لیکن ..
کھیلوں کی ایسوسی ایشن جو اپنے آپ کو این جی اوز کہلواتی ہیں فنڈز سپورٹس کی وزارت سے لیتی ہیں ، لیکن اپنے آپ کو اسی وزارت کیساتھ رجسٹرڈ تک کروانا نہیں چاہتی بلکہ ایسوسی ایشنز تو یہ کہتی ہے کہ ہم بین الاقوامی اداروں کیساتھ رجسٹرڈ ہیں . ٹھیک ہے کہ اگر آپ رجسٹرڈ ان کیساتھ ہیں تو پھر ان سے فنڈنگ بھی لیں.. لیکن یہاں پر صورتحال مختلف ہوتی ہیں ، فنڈز لینے کیلئے کھیلوں کی ایسوسی ایشن تو سپورٹس کی وزارت کے آگے پیچھے ہوتی ہیں لیکن ان کی مداخلت نہیں مانتی.اسی طرح کھیلوں کے ایسوسی ایشنز کے دفاتر کہاں پر ہیں اس بارے میں کسی کو معلوم ہی نہیں ، سیکورٹی کلیئرنس کس نے دی ،یہ تضاد والی صورتحال ہے جس پر ابھی تک سپورٹس کی وزارت بھی خاموش ہیں اور کھیلوں کے ایسوسی ایشن کے کرتا دھرتا بھی ..
سب سے دلچسپ بات تو کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کی یہی ہے کہ کھیلوں کے بہت سارے ایسوسی ایشنز پر ایسے لوگ قبضہ مافیا کی طرح چمٹے ہوئے ہیں جنہیں اس کھیل کے بارے میں معلومات تک نہیں ، ایسے لوگ بھی اہم عہدوں پر قابض ہیں جن کے پاس گز گز کی لمبی زبانیں ہیں ، جو وقت آنے پر جوتوں کو چاٹتے ہوئے نظر آتی ہیں اور کبھی کبھاران گز بھر لمبی زبانوں کو لوگو ں کے خلاف استعمال کرتی ہیں-کوئی یہ سوال کرنے کی ہمت نہیں رکھتا کہ پوچھ سکیں کہ دو سے تین دہائیوں پرکھیلوں کے ایسوسی ایشن پر براجمان ان افراد کی کارکردگی کیا ہے.نہ ہی کوئی یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ” صاحب لوگوں کی خفگی کا سامنا کرنا پڑے گا. یا پھر منتھلی نہیں ملے گی” .
کیا کھیلوں کے ایسوسی پر عرصہ دراز سے مسلط افراد کے رشتہ دار ہونا ہی قابلیت کی انتہا ہے کہ باپ کے بعد بیٹا بھی ایسوسی ایشن کو سنبھالے گا-بھائی کیساتھ بھائی ہی عہدے سنبھالے گا .عہدوں کی بندر بانٹ کے بارے میں ابھی تک کسی نے سوال اٹھایا ہے کہ کھیلوں کے ایسوسی ایشنز پر صرف چند ہی مخصوص لوگوں کا قبضہ کیوں ہے.جو صرف عہدے بدل بدل کر اپنی لئے راستہ نکالتے ہیں اور کیا کوئی ایسوسی ایشن یہ دکھا سکتی ہیں کہ ان کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ اولمپک کے مقابلوں میں ہم نے اتنے گولڈ حاصل کئے یا ہم نے اس شعبے میں یہ میدان مار لیا ہے-سوائے چند کھیلوں کی ..جبکہ مزے ،ٹورز اور فنڈز تمام کے تمام ایسوسی ایشنز لے رہی ہیں اس میں رجسٹرڈ کس کے پاس ہے ، کارکردگی کیا ہے ، اب تک کتنے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا ہے. یہ اب ضمنی سوال بن کر رہ گیا ہے.
خیبر پختونخواہ میں کھیلوں کی ایسوسی ایشن سے وابستہ افرادکس کاروبار سے وابستہ ہیں ، ان کی اثاثوںکی تفصیلات کیا ہیں ان کے جائیدادکہاں پر ہیں ، ایسوسی ایشن میں آنے سے قبل عہدوں پر تعینات افراد کے اثاثے کیا تھے ، کتنے بیرون ملک رشتہ دار بھجوا دئیے- وزارت داخلہ این جی اوز سے وابستہ افراد کی اثاثوں کے حوالے سے بہت سوالات اٹھاتی ہیں بہت سارے این جی اوز کو اس بناء پر بین بھی کیا گیا لیکن کیا سیکورٹی ادارے کھیلوں سے وابستہ ایسوسی ایشنز کے اہم عہدوںپر تعینات افراد کے اثاثے چیک کرسکتی ہیں- اور یہ چیکنگ کب کرے گی .
رشتہ داروں ، بھائیوں اور مخصوص لوگوں پرمشتمل کھیلوں کے ان ایسوسی ایشنزکی کارکردگی رپورٹ کیا ہے ،کیا کارکردگی کی بنیاد پر فنڈز جاری ہوتے ہیں.اور کھیلوں کے ایسوسی ایشنز پر مسلط افراد نے کبھی کوئی گیم کھیلی بھی ہے یا صرف آن لائن ٹیسٹ پا س کرکے آئے ہیں یا پھر ان کے آگے آنیکا بھی کوئی معیار ہے کہ نہیں. ان ایسوسی ایشنز کے انتخابات کی نگرانی کس نے کی ، کس کو وزارت سپورٹس سے فنڈز مل رہے ہیں – کتنے کھیلوں کے ایسوسی ایشنز حقیقت میں فیلڈمیں موجو د ہیں اور کتنے ہوا میں معلق ہیں.کیا کھیلوں کی وزارت سے وابستہ افراد نے یہ انکوائری کی ہے یا نہیں. یقینا جواب نفی میں ہی آئیگا.یہ ایسے سوال ہیں جس کے بارے میں بات کرنا بہت ساروں کوبرا لگتا ہے کیونکہ اس سے ان کی کارکردگی کا پول کھلتاہے .
کھیلوں کی وزارت نے نئی سپورٹس پالیسی بھی مرتب کی ہے لیکن اس پر عملدرآمد تب تک ممکن نہیں ، جب تک کھیلوں کی ایسوسی ایشنز پر مسلط قبضہ مافیا کوختم نہیں کیا جاتا ، اور یہ ہر حال میں کرنا ہوگا بلاجھجھک بلالحاظ اور بغیرکسی توقف کے ، کیونکہ کارکردگی تو کچھ ہی نہیں ، نہ ہی ریکارڈ پر کچھ ہیں ، ایک ایسی ایسوسی ایشن بھی ہیں جس کا دس سال کا کاغذ ی ریکارڈ کچھ نہیں لیکن چونکہ کھیلوں کا میدان ہے ا ور بی بی سوری صاحب کے آگے پیچھے ہونیوالے لوگ ہیں اس لئے فنڈز بھی یہی لوگ لیتے ہیں…
موجودہ حالات میں کھیلوں کی ترقی کیلئے کھیلوں کی وزارت جو کہ خیبر پختونخواہ میں وزیراعلی محمود خان کے پاس ہے ، ان کے پاس ایک ہی آپشن ہے کہ پہلے تمام ایسوسی ایشنز سے ان کا ریکارڈ ، دفاتر کے پتے ، ایسوسی ایشنزمیں تعینات افراد کے رشتہ داریوں ، اثاثوں کے بارے میں غیر جانبدارانہ طور پر چوری چھپے انکوائری کروائی جائے-پھر پتہ لگ جائیگا کہ کون کھیلوں کے فروغ میں سنجیدہ ہے ، کتنے کھلاڑی خیبر پختونخواہ سے اس میدان میں آگے آئے ہیں اور کن لوگوں نے جائیدادوں پر جائیدادیں بنا لی ہیں – کون سی ایسوسی ایشنز ہیومن ٹریفکنگ میں ملوث ہیں- یہ ایسی باتیںہیں جس میں کھیلوں سے وابستہ افراد کیساتھ ساتھ عام لوگوں کی بھی دلچسپی ہے . او ر پھر جو لوگ کرپٹ ہیں ان کے خلاف نیب کاروائی کرے تب ہی کھیلوں کے میدانوں میں جان آسکتی ہیں ورنہ تو… فنڈز ریلیز ہوتے رہیں گے اور بقول پشتو مثل کے..چہ لالے مے سوداگر دے.. بس زی او رازی..