چیف سلیکٹر صاحب کیا ورلڈ کپ سکواڈ ایسا ہوتا ہے؟

اختر علی خان
پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی نے چیف سلیکٹر محمد وسیم کی سربراہی میں ہوم گرائونڈ پر نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز اور پھر رواں سال ہونے والے ٹی ٹوئنٹی عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کیلئے پندرہ رکنی سکواڈ کا اعلان کردیا ہے،ابھی ٹیم کے اعلان کے حوالے سے چہ مگوئیاں جاری تھیں کہ ساتھ ہی خبر آگئی کہ قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ جو دو روز قبل جمیکا میں اپنا قرنطینہ مکمل کرکے وطن واپس پہنچے تھے نے اور ٹیم کے فاسٹ بائولنگ کوچ وقار یونس نے اپنے اپنے عہدے سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے، پہلے بھی کئی بار لکھا جا چکا ہے کہ جب بھی کوئی اہم سیریز یا ٹورنامنٹ شروع ہونے والا ہوتا ہے اس سے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ کی غلطی یا کسی اور وجہ سے کوئی نہ کوئی تنازع ہماری ٹیم کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور پھر اسی تنازع کے گرد ہماری قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی گھومتی ہے جس کا اختتام بہرحال اچھا نہیں ہوتا

مصباح الحق اور وقار یونس کے مستعفی ہونے پر بھی بات ہو گی اور بتایا جائے گا کہ آخر کار ایسی کونسی وجہ تھی جس کی وجہ سے ان دونوں کو اتنی اہم سیریز اور پھر عالمی کپ سے قبل یہ مشکل فیصلہ کرنا پڑا ہے مگر پہلے بات کرتے ہیں قومی کرکٹ ٹیم کے انتخاب کے حوالے سے قومی ٹیم میں بالآخر ایک طویل عرصے تک ساتھ ساتھ سفر کرنے والے سابق کپتان وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کو ڈراپ کرکے یہ واضح اشارہ دیدیا گیا ہے کہ اب ان کی قومی کرکٹ ٹیم میں کوئی جگہ نہیں بنتی

سلیکٹرز کے اس فیصلے کے بعد اب سرفراز احمد کو بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کرنا پڑے گا اسی طرح سلیکٹرز نے ایک رواں سال اپریل میں خراب کارکردگی کی بنیاد پر ڈراپ کئے جانے والے آصف علی اور خوشدل شاہ کو ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا ہے اپریل میں چیف سلیکٹر کے مطابق ان دونوں کھلاڑیوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا مگر اب پانچ ماہ بعد چیف سلیکٹرز نے ان پر بھروسہ کرتے ہوئے عالمی کپ جیسے اہم ٹورنامنٹ کیلئے ان کا انتخاب کرلیا ہے، ٹیم سے حیران کن طور پر جارح مزاج بلے باز شرجیل خان کا بھی ڈراپ ہونا ہے شرجیل خان کو سلیکٹرز نے ریزرو کھلاڑیوں میں بھی شامل نہیں کیا ہے ان کے ٹیم سے ڈراپ ہونے کے حوالے سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ٹیم کا اعلان نئے متوقع چیئرمین رمیز راجہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا گیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی مشاورت بھی شامل ہو، رمیز راجہ کبھی بھی ان کھلاڑیوں کی ٹیم میں شمولیت کے حق میں نہیں رہے جن پر میچ فکسنگ یا سپاٹ فکسنگ جیسے الزامات رہے ہوں اب اس لحاظ سے یہ بات پکی ہو چکی ہے کہ فاسٹ بائولر محمد عامر کا پاکستان کیلئے کرکٹ کیریئر تقریباً ختم ہو چکا ہے، شرجیل خان کی خراب کارکردگی نے بھی سلیکٹرز کو ان کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں مدد فراہم کی ہے

رواں سال مارچ میں ٹیم میں کم بیک کرنے والے شرجیل خان انٹرنیشنل میچوں میں خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں، سلیکٹرز نے آل رائونڈر فہیم اشرف کو بھی ٹیم سے ڈراپ کردیا ہے جبکہ عثمان قادر، شاہنواز دھانی اور فخر زمان کو ریزرو کھلاڑیوں میں شامل کیا ہے ، پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس 15 اکتوبر تک کا وقت ہے کہ اگر وہ کوئی عالمی کپ کیلئے اعلان کردہ ٹیم میں تبدیلی کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، اعلان کردہ ٹیم میں آصف علی اور خوشدل شاہ کی شمولیت کے بعد کئی سوالات اٹھیں گے جن کا جواب بہرحال پی سی بی کو دینا ہوگا، دونوں کرکٹرز کو اس سے قبل بھی کئی مواقع دیئے گئے مگر دونوں ہی بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں اور بالآخر رواں سال اپریل میں ان دونوں کو سلیکٹرز نے ڈراپ کردیا تھا، آصف علی جن کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ وہ اس وقت ڈومیسٹک کرکٹ میں سب سے زیادہ جارح مزاج بلے باز ہیں اور بلاشبہ انہوں نے ڈومیسٹک کی سطح پر اس بات کو ثابت بھی کیا ہے مگر آصف علی بین الاقوامی کرکٹ میں اپنے ٹیلنٹ کے مطابق کارکردگی دکھانے میں اب تک ناکام رہے ہیں، اب تک کھیلے گئے 29 بین الاقوامی کرکٹ میچوں میں ان کی اوسط 16.38 بنتی ہے جبکہ ان کا سٹرائیک ریٹ 123.74 بنتا ہے ، اس کے مقابلے میں ڈومیسٹک کرکٹ میں ان کا سٹرائیک ریٹ 147.02 تک پہنچ گیا ہے اس وقت آصف علی کیریبین پریمیئر لیگ میں کھیل رہے ہیں اور وہاں بھی انہوں نے اب تک کھیلے گئے پانچ میچوں میں صرف 32 رنز بنائے ہیں اب معلوم نہیں چیف سلیکٹر کو ان میں ایسا کیا نظر آیا ہے کہ انہوں نے اتنے اہم مقابلوں کیلئے ان پر بھروسہ کرلیا ہے

کچھ اسی طرح کے سوالات اعظم خان کے ٹیم میں شمولیت کے حوالے سے ہیں اعظم خان کا بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں سٹرائیک ریٹ بہت اچھا ہے مگر سابق کپتان و وکٹ کیپر بلے باز معین خان کے صاحبزادے اعظم خان ابھی تک بین الاقوامی کرکٹ میں اپنے انتخاب کو تاحال درست ثابت نہیں کرسکے ہیں، اعظم خان کو سرفراز احمد جیسے منجھے ہوئے تجربہ کار کھلاڑی پر ترجیح دینا بہرحال سمجھ سے بالاتر ہے، اب آتے ہیں مصباح الحق اور وقار یونس کے مستعفی ہونے کے فیصلے پر، ایک وجہ تو وہ ہے جو مصباح الحق نے بتا دیا ہے لیکن ذرائع کچھ اور ہی کہتے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ مصباح الحق جو کورونا مثبت آنے کی وجہ سے جمیکا میں قرنطینہ کئے ہوئے تھے سے ٹیم کے انتخاب کے حوالے سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی ہے حلانکہ یہاں یہ خبریں چلتی رہی ہیں کہ ٹیم کے حتمی انتخاب کے حوالے سے مصباح الحق سے ٹیلی فون پر مشاورت کی گئی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے ان کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی گئی جس کا مصباح الحق کو دکھ تھا اور وہ صرف ٹیم کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے کیونکہ کچھ عرصہ قبل انہوں نے عالمی کپ سکواڈ کے حوالے سے کچھ سینئر کھلاڑیوں کے نام دیئے تھے اور واضح کیا تھا کہ ٹیم کو ان کی ضرورت ہے اب جب ٹیم میں ان کھلاڑیوں میں کوئی بھی شامل نہیں ہوا تو مصباح الحق سمجھ گئے کہ اب ان کے جانے کا وقت آگیا ہے لہٰذا انہوں نے اپنے فیصلے سے بورڈ کو آگاہ کیا اور ساتھ ہی وقار یونس سے بھی رابطہ کیا وقار یونس بھی ٹیم کے انتخاب میں شامل نہ کئے جانے پر بورڈ سے ناراض ہیں اور انہوں نے بھی مصباح الحق کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ سلیکٹرز کی جانب سے اعلان کردہ ایک متنازعہ ٹیم کے ساتھ ہم کیا کارکردگی دکھاتے ہیں اور اہم سیریز اور عالمی کپ سے قبل ہیڈ کوچ اور بائولنگ کوچ کے مستعفی ہونے کا تنازع ٹیم پر کس قدر اثر انداز ہوتا ہے۔

error: Content is protected !!