پشاور، ڈی ایس او، اضلاع، کارکردگی، زیرو
تحریر…… مسرت اللہ جان
سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی کوئی پالیسی ہی نہیں، جس کی لاٹھی، سوری جس کی پی ایم ایس افسر ی اس کی ہی چلتی ہیں، نظامت سپورٹس کا کوئی بندہ یہ واضح کرے کہ گذشتہ ایک سال میں صوبائی دارالحکومت پشاورمیں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس کے زیر انتظام کتنے مقابلے کروائے گئے، ان
میں فٹ بال کے مقابلے کتنے تھے، سکواش کے کتنے تھے، ٹینس کے کتنے تھے، والی بال کے کتنے مقابلے کروائے گئے، ہاکی کے مقابلے کتنے کروائے گئے، یا اسی طرح دیگر کھیلوں کے کتنے مقابلے ضلع
پشاور کی سطح پر کروائے، سوئمنگ سے لیکر آرچری تک اور کرکٹ سے لیکر اتھلیٹکس کا کوئی ایک مقابلہ بھی گذشتہ ایک سال میں کروایا گیا ہو اور ا س میں کھلاڑی نکلے ہو ں تو بتایا جائے.اگر پشاور جو صوبے کا دارالحکومت ہے اور یہاں پر یہاں حال ہے تو صوبے کے دیگر اضلاع میں کھیلوں کے مقابلوں کا کیا
حال ہوگا، اسی طرح ضم اضلاع میں کھیلوں کے کتنے مقابلے کروائے گئے. یہ پوچھنا کس کا کام ہے، صرف ضلعی انتظامیہ پر چھوڑ دینا ہی نہیں بلکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے وہ اپنی ذمہ داری کب پورے کرے گی.
یہ کہنا تھا کھیلوں سے وابستہ متعدد ایسوسی ایشن کے نمائندوں کا، جن کے بقول سوائے سکول کے مقابلوں کے انعقاد سمیت ضلعی انتظامیہ کے منعقدہ پروگرام جس میں ہیروئنچیوں کو غازی کہہ کر ایک
منصوبے کا آغاز کیا گیا اور اس میں ہیروئن اور آئس پینے والوں کے مابین مقابلے ضلعی انتظامیہ کی خواہش پر کروائے گئے باقی پشاور میں کوئی بھی ایسوسی ایشن یہ نہیں کہہ سکتی کہ ان کے کھلاڑیوں کیلئے ضلع پشاور کی سطح پر مقابلوں کا انعقاد کیا گیا ہو.حالانکہ اسی دوران متعددقومی دن آئے، متعدداہم
مواقع آئے جس پر کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاسکتا تھا لیکن ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس پشاور کی کمزو ر اور نااہل انتظامیہ کچھ بھی نہیں کرسکی ہیں. اگر کھیلوں کیلئے مقابلوں کاانعقاد نہ ہوں، انہیں مواقع
نہ دئیے جائیں تو پھر لاکھوں روپے لینے والے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفسر و ریجنل سپورٹس آفسر کی کارکردگی کہاں پر جانچی جاسکتی ہیں، تنخواہیں، گاڑیاں، پٹرول،شاندار دفاتر میں ائیر کنڈیشنر جیسی سہولیات کے مالک ڈسٹرکٹ سپورٹس افسران کی کارکردگی کو آخر کون مانیٹر کرے گا.
کھیلوں کے ایسوسی ایشنز سے وابستہ نمائندوں کے مطابق سپورٹس ڈائریکٹریٹ ہر سال ایسوسی ایشن سے سالانہ کھیلوں کے مقابلوں کے کیلنڈر طلب کرتی ہیں کیا انہوں نے اپنے ڈسٹرکٹ سپورٹس
افسران کی کارکردگی چیک کی ہیں کیا ان سے کوئی کیلینڈر طلب کیا ہے کہ انہوں نے کتنے مقابلے منعقد کروائے ہیں، کتنے کھیلوں کے نئے کھلاڑی سامنے آئے ہیں، انہیں مراعات تو مل رہی ہیں، شاندار
دفاتر میں بیٹھے ہیں اور کھیلوں کے فروغ کیلئے انہیں ضلعی انتظامیہ سمیت سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھی رقمیں جاری کرتی ہیں لیکن آج کل تو کرونا بھی نہیں پھر پشاور جیسے شہر میں کھیلوں کے مقابلے کیوں نہیں کروائے جارہے.
کھیلوں کے مختلف مقابلوں کے انعقاد میں سوات، چارسدہ، بنوں اور ڈی آئی خان کے علاوہ تمام اضلاع میں خاموشی ہیں اسی طرح ضم اضلاع میں سوائے خیبر، مہمند اورباجوڑ میں چند مخصوص دن مقابلے
کروائے جاتے ہیں جس میں بھی ضلعی انتظامیہ اور پاک آرمی ان ڈسٹرکٹ سپورٹس افسران کے ساتھ تعاون کرتی ہیں ورنہ دوسری صورت میں ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس جہاں پر اسسٹنٹ، کمپیوٹر آپریٹر، کلاس
فور کی بھر مار ہوتی ہیں اور لاکھوں روپے عوامی ٹیکسوں کا ان افسر شاہی پر اڑایا جاتا ہے کی کارکردگی زیرو ہے، اور یہاں پر تعینات بیشتر افسران صرف نشستا خورد تک ہی محدود ہیں.
کھیلوں سے وابستہ حلقوں کے مطابق آج تک کسی بھی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس کے نمائندے نے کبھی اپنے ضلع میں کھیلوں کے نمائندوں کو طلب نہیں کیا کہ ان کے مسائل کیا ہے انہیں کیا سہولیات چاہئیے
اسی طرح ان کے پاس کھلاڑی کتنے ہیں ان کھلاڑیوں کو دی جانیوالی سہولیات پر آج تک کسی بھی ایسوسی ایشن کے نمائندے کو نہیں بلایا گیا، اس میں کسی بھی کھیل کی تخصیص نہیں نہ ہی یہ
میٹنگ کسی بھی سطح پر کسی بھی ایسوسی ایشن کے نمائندے سے کی گئی جن میں ان سے تجاویز لی گئی ہوں کہ کونسے علاقوں میں کونسل کھیل کے کھلاڑی زیادہ ہیں اور کیا وہاں پر دی جانیوالی
سہولیات سے کھلاڑی مطمئن ہیں، کیا جب کسی نئے کمپلیکس یا گراؤنڈپر بات کی جاتی ہیں تو زمین حقائق دیکھے جاتے ہیں کہ کس علاقے میں کونسے کھیل کے کھلاڑی موجود ہیں جن کیلئے کام کرنا
ضروری ہے. کیا آج تک کسی بھی ڈسٹرکٹ سپورٹس آفس کے نمائندے نے کسی پرائیویٹ فرمز، ادارے کیساتھ کسی بھی کھیل کیلئے سپانسرشپ کے حوالے سے رابطہ کیا ہے، کوئی کوارڈینیشن میٹنگ کی ہے، جواب نفی میں ہی ملے گا.
کیا آج تک کسی بھی کھیلوں سے وابستہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفسر کی تنزلی ہوئی ہیں کیااس کی کارکردگی کی بنیاد پر ان کی پروموشن ہوتی ہیں یا ان سے کسی نے سوال کیا ہے کہ آپ کے پاس ضلع
کی سطح پر کتنے کھلاڑی ہیں، مرد کتنے ہیں، فیمیل کتنے کھلاڑی ہیں، کتنے کھیلوں کے کھلاڑی ہیں، اس بارے میں خاموشی ہیں، کیا کسی نے مختلف اضلاع میں تعینات ڈی ایس او کے اخراجات چیک کئے
ہیں، ان کے اثاثے پہلے کیا تھے اور اب کیا ہیں یہ وہ اس طرح کے بہت سارے سوالات ہیں جو نہ صرف کھیلوں سے وابستہ ایسوسی ایشن کے نمائندے سوال کرتے ہیں بلکہ کھلاڑی بھی سوال کررہے ہیں کہ
اگر عوامی ٹیکسوں پر پلنے والے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کی کارکردگی نہیں، کھلاڑی پیدا نہیں کرسکتے، مقابلوں کا انعقاد نہیں کرسکتے تو پھر انہیں فارغ کرنا ہی چاہئیے کیونکہ یہ خیانت کے مرتکب ہورہے ہیں.اور خیانت کرنے والے دنیا و آخرت دونوں میں سزا وار ہیں.