سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کھیل سے وابستہ بیورو کریٹ کی تعیناتی ، نئے ڈی جی کو درپیش چیلنجز
مسرت اللہ جان
کھیلوں کے شعبے میں ایسے بیورو کریٹس کو لانا چاہئیے جو خود کھلاڑی ہوں یا پھر ان کی وابستگی کھیل سے لازمی ہوں تبھی وہ کھلاڑیوں کی مشکلات ، مسائل کو دیکھ کر سمجھیں گے اور ان کے حل کیلئے کوششیں بھی کرینگی ورنہ دوسری صورت میں صورتحال ایسی بنے گی کہ کھیل کا شعبہ مزید ابتر ہو تا جائے گا
اور کھیل کے میدان تو موجود ہونگے لیکن کھلاڑی ناپید ہونگے .نرسری سطح پر کھیلوں کے مقابلوں کے رجحان کو پیدا کرنے کیلئے سروے کی بھی ضرورت ہے اسی طرح سکولوں کی سطح پر بھی مقابلوں کے انعقاد کی ضرورت ہے تاکہ سال 2018 میں نافذ کردہ سپورٹس پالیسی پر عملدرآمد ہوں اور نئے کھلاڑی
پیدا ہوسکیں. یہ باتیں کھیلوں سے وابستہ مختلف ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے کی.جن سے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے حوالے سے سوالات کئے گئے جس پر مختلف ایسوسی ایشنز کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا. کھیلوں کے مختلف ایسوسی ایشنز کے مطابق ایسے بیورو کریٹس ہر جگہ لازمی
ہوتے ہیں جو خود کھلاڑی ہوتے ہیں اس لئے انہیں کھیلوں ، کھلاڑیوں اور کھیل سے وابستہ دیگر لوازمات کا پتہ ہوتا ہے اسی بناءپر اسے حل کرنے کیلئے کوششیں بھی کرتا ہے جبکہ ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا سروس سٹرکچر ایسا بنایا گیا ہے کہ کئی دہائیوں سے لوگ اسی محکمے میں تعینات ہیں وہ کھیلوں کے شعبے سے وابستگی کی بناءپر تجربہ بھی رکھتے ہیں مگر انہیں ٹاپ
پوزیشن پر نہیں لایا جاتا جبکہ اس کے مقابلے میں پی ایم ایس افسر ایک مخصوص وقت کیلئے آتا ہے اور ابتدائی چھ ماہ اسے یہ سمجھنے میں وقت لگتا ہے کہ مسئلہ کیا ہے اسی دوران کھیلوں کا شعبہ برباد ہو
جاتا ہے . اسی بناءپر لازمی ایسے بیور کریٹس تعینات کئے جائیں جو خود یا ان کے بچے یا پھر ان کی وابستگی کھیلوںکے شعبے سے لازمی ہوں تبھی وہ ابتداءہی سے کھیلوں کے فروغ کیلئے کوششیں کرینگے.
ان کے مطابق کھیلوں کے شعبے سے نابلد بیور و کریٹس کی تعیناتی سے ابتداءہی سے محکمے کے مخصوص افسران بیورو کریٹس کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور ان سے وہی کچھ کرواتے ہیں جو ان کے
اپنی مرضی کا ہوتا ہے اسی طرح مختلف ایسوسی ایشنز سے تعلقات بھی انہی مخصوص افراد کے رحم و کرم پر ہوتے ہیںجو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تعینات ہوتے والے بیورو کریٹ کو ایسوسی ایشنز کے بارے میں منفی سرگرمیاں بتاتے ہیں حالانکہ کھیلوں کے فروغ میں جتنا کردار ایسوسی ایشنز کا ہے اتنا کسی اور کا
نہیں اور ان کیساتھ نچلی سطح پر کھلاڑیوں کی بڑی تعداد ہوتی ہیں لیکن کھیلوں کے شعبے میں کئی دہائیوں سے تعینات افراد کی وجہ سے ایسوسی ایشنز کیلئے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں .
ایسوسی ایشن سے وابستہ افراد کے مطابق سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں نئے تعینات ہونیوالے ڈائریکٹر جنرل کو متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ سابقہ حکومت نے ابتداءمیں کھیلوں کے ایک
ہزار سہولیات منصوبے کا آغاز کیا ، بہت کم تعداد میں گراﺅنڈز بنے جو بنے ہیں وہ بھی غیر معیاری بنائے گئے ہیں جبکہ سال 2022 میں کوئی فنڈز اس منصوبے کیلئے جاری ہی نہیں کیا گیا ، یہ منصوبہ کم و بیش
ابھی ختم ہو چکاہے اسی غیر فعال منصوبے کے اہلکار گذشتہ ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ سے تنخواہیں لے رہے ہیں اور ان کی سرگرمیاں نظر نہیں آرہی . جس کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے.اسی طرح
سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے سال 2022 میں انجنیئرنگ ونگ کوایک الگ ڈیپارٹمنٹ میں تبدیل کرلیا لیکن حال یہ ہے کہ اسی ونگ کے زیر انتظام بیشتر منصوبے جس میں ہاکی گراﺅنڈز جو ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر چارسدہ اور پشاور میں بنائے گئے اور یہ سب کچھ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام کئے گئے
بیشتر غیر معیاری بنے ہوئے ہیں ،بنوں میں ٹرف پھٹ چکا ہے ، اسی طرح اسلامیہ کالج پشاور کا ٹرف بھی خراب ہے ، چارسدہ کے عبدالولی خان سپورٹس کمپلیکس میں بنائے گئے آسٹرو ٹرف کے ساتھ کیا گیا سول ورک انتہائی حد تک خراب ہے ، اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کا آسٹرو ٹرف بھی خراب ہے اور ان سب کاموں کی نگرانی انجنیئرنگ ونگ خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کی اور یہ سب کچھ کم و بیش دو سال کی قلیل مدت میں ہوا ہے لیکن حال یہ ہے کہ گراﺅنڈز اور ٹرف تباہ حال ہے جس پر عوامی ٹیکسوں کے کروڑوں روپے لگائے گئے ہیں.
اسی طرح پشاو ر سپورٹس کمپلیکس میں واقع لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں پی ایس بی کے تعاون سے جو ٹرف ڈالا گیا ہے وہ بھی غیر معیاری ہے ، ٹرف سے لیکر بیس اور گول پوسٹ کے پیچھے جنگلے تک خراب ہیںاسی طرح ایبٹ آباد میں نئے بننے والے آسٹروٹرف کا بھی یہی حال ہے ، ایسوسی ایشنز کے
نمائندوں کے مطابق نئے ڈائریکٹر جنرل کو درپیش چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج قلیل مدت میں بغیر مشتہر کے کئے گئے بھرتیوں کے انبار ہیں جس میں نہ صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ بلکہ مختلف ممبران اسمبلی نے بھی خوب ہاتھ دھوئے ، کئی کئی سالوں سے کام کرنے والے تعلیم یافتہ نوجوان جن میں ماسٹر تک کے تعلیم حاصل کرنے والے کلاس فور شامل ہیںانہیں ڈیلی ویجز پررکھا گیا ہے جبکہ دو ماہ سے
چار ماہ کے دوران کی جانیوالی غیر ضروری اور جعلی ڈاکومنٹس پر دیگر اضلاع سے ہونیوالی بھرتیوں کو بھی چیک کرنے کی ضرورت ہے جنہیں مستقل کردیا گیا ہے جس سے اسی ڈیپارٹمنٹ میں عرصہ دراز سے ڈیوٹی کرنے والے نوجوان طبقے میں مایوسی پھیل رہی ہیں.
کھیلوں سے وابستہ افراد کے مطابق مہنگائی نے جس طرح زندگی کے دیگر شعبوں سے وابستہ افراد کو متاثر کیا ہے وہیں پر کھیل کا شعبہ بھی اس سے متاثر ہوا ہے مختلف کھیلوں کا سامان جس میں فٹ بال ، ہاکی ، بیڈمنٹن ، ٹیبل ٹینس ، ٹینس ، آرچری و دیگر کھیل شامل ہیں انکا سامان دوگنا ہو چکا ہے ، اسی
طرح سپورٹس گیئر ، شوز کٹس تک کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اسی بناءپر عام لوگ اس طرف آنے کا بھی نہیں سوچتے ، دوسری طرف کھیلوں کے میدانوں میں نوجوانوں کو لانے والے ایسوسی ایشنز کو سال 2010 والے گرانٹس مل رہے ہیں اسی بناءپر مقابلے بھی کم ہورہے ہیں اور کم تعداد میں نئے کھلاڑی نکل
رہے ہیں ، اسی طرح کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی ذمہ داری ہے اور یہ سب کچھ سال 2018 میں نافذ کردہ سپورٹس پالیسی میں واضح ہے لیکن حال یہ ہے کہ اس طرف کسی کی توجہ نہیں جارہی ،اسی طرح یہ سروے بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ کن سکولوں میں کتنے کھلاڑی موجود ہیں اور اس میں کونسے کھیل کیلئے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے.
ایسوسی ایشنز سے وابستہ افراد کے مطابق کھیلوں کے بیشتر مقابلے اب صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی منعقد کرواتی ہیں حالانکہ یہ ان کا کام نہیں یہ ایسوسی ایشنز کا کام ہے جس کی نگرانی اور
سرپرستی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو کرنے کی ضرورت ہے جس پر نئے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے. کیونکہ جتنے کھیلوں کے مقابلے کروائے گئے اس حساب سے تو ہزاروں کی تعداد میں کھلاڑی میدانوں میں آنے چاہئیے لیکن ایسا نہیں ہوا.ان کے مطابق سابق دور حکومت میں
ڈویلمپنٹ کے نام پر جو منصوبے شروع کئے گئے وہ غیر معیاری ہے . سال 2019سے لیکر اب تک جتنا بھی سپورٹس کا سامان لیا گیا اسے بھی منصفانہ طریقے سے تقسیم نہیں کیا گیا اور بیشترممبران اسمبلی کے حوالے کیا گیا ،اسی طرح کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کیلئے شروع کئے گئے مختص فنڈز سے صرف چند
نامی گرامی کھلاڑیوں کی مالی امداد ی جارہی ہیں جبکہ بیشتر کھلاڑی جو غریب ہیںوہ خوار ہورہے ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس عمل کو شفاف کرنے کی بھی ضرورت ہے.
کھیلوں سے وابستہ افراد کے مطابق مختلف کھیلوں سے وابستہ کوچز کی بڑی تعداد کو ڈیلی ویج پر رکھا گیا ہے حالانکہ یہی کوچز اگر بیرون ملک ہو تو انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ، کوچز کی ڈیلی ویج تعیناتیوں کا سلسلہ بند کیا جائے تاہم اس پر میرٹ پر عملدرآمدکیا جائے.صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے ایسے کوچز
بھی لئے ہیں جن کے نام ہیں مگر اب ان کی ضرورت نہیں ، کیونکہ وقت کے تقاضوں کے پیش نظر نوجوانوں کو مواقع دینے چاہئیے.کھیلوں سے وابستہ افراد کے مطابق صوبائی سپورٹس ڈائریکٹرٹ کی سیکورٹی کے
عمل پر بھی نئے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ کیمرے تو انسٹال ہیں مگر ان کی ر یکارڈنگ کا پتہ ہی نہیں ، ایک ماہ کے اندر ٹیبل ٹینس ہال سے روبوٹ مشین بھی غائب ہو گئی جو کم و بیش ایک ملین روپے کی تھی اس طرح آرچری کا سامان توڑا یا ، بہت سارے ایسے واقعات ہو چکے
ہیں جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس معاملے میں نئے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ پر بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہیں ، کیونکہ کھیل صرف پشاور تک ہی محدود نہیں بلکہ پورے صوبے کا حق ہے اس لئے دیگر اضلاع کے کھلاڑیوں اور کھیلو ں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے. ان کے مطابق
سپورٹس ڈائریکٹریٹ میںنئے تعینات ہونیوالے ڈائریکٹر جنرل کو خوشامدیوں سے بچنے کی ضرورت ہے جن کا مقصدصرف اپنے آپ کو بچانا ہوتا ہے اسی باعث وہ پورے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو داﺅ پر اپنے مقصد کیلئے لگاتے ہیں .