نیشنل گیمز، اولمپک اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کی خود احتسابی کی ضرورت
مسرت اللہ جان
نیشنل گیمز کوئٹہ میں اختتام پذیر ہوگئے، دوسرے صوبوں کی بہ نسبت خیبر پختونخواہ نے بہترین پوزیشن حاصل کرلی اور دیگر صوبوں کے مقابلے میں ٹاپ پوزیشن پر آئے. میزبان بلوچستان کی ٹیمیں مختلف مقابلوں میں میڈل حاصل نہیں کرسکی اسی بناء پر میزبان ہونے کے باوجود بلوچستان کی کارکردگی بھی خراب رہی.ایک لحاظ سے خیبر پختونخواہ کی کارکردگی بہتر رہی، لیکن صرف یہ کہہ کر کہ خیبر پختونخواہ کی دستے نے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہتر پوزیشن حاصل کرکے جان چھڑائی نہیں جاسکتی نہ ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں خیبر پختونخواہ نے کئی ریکارڈ قائم کئے ہیں، یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں کھیلوں کے شعبے کیلئے جس طرح کے اقدامات سابق دور حکومت میں کئے گئے کتنے فنڈز مختص کئے گئے، صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کتنے کوچز بھرتی کئے گئے کتنے مقابلے کروائے گئے کیا اس کی بناء پر خیبر پختونخواہ کی کارکردگی کو تسلی بخش تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اسے مثالی بھی قرار نہیں جاسکتا.
کھیلوں کی وزارت پر سابق دور حکومت میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ذریعے کتنی فنڈز خرچ کئے گئے اس کا حساب تو کوئی نہیں دے گا کیونکہ یہاں پر ” آگے دوڑ اور پیچھے چھوڑ”والا حساب چل رہا ہے اور اس ڈیپارٹمنٹ میں آنیوالا بیورو کریٹ خواہ وہ ڈی ایم جی ہو یا پی ایم ایس، ہر کوئی اپنی پالیسی، اپنی مرضی اور کارخاص لاکر عملدرآمد کرانے کی کوشش کرتا ہے اسی عمل میں کھیل اور کھلاڑی کوجتنا فائدہ پہنچتا ہے اتنا تو نہیں پہنچتا البتہ مخصوص لوگوں کو پہنچ جاتا ہے جو سب کے سامنے ہیں، اگر یقین نہیں آتا تو پھر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام کام کرنے والے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز جو کم و بیش پینتیس اضلاع میں کام کررہے ہیں، ان کی گذشتہ تین سالوں کی کارکردگی سامنے لائی جائے کہ انہوں نے اپنے مختص علاقوں میں کتنے کھیلوں کے پروگرام منعقد کروائے، کتنے کھلاڑی نکلے، کونسے کونسے کھیلوں کے مقابلے ہوئے، سوائے چند اضلاع کی، بیشتر پر خاموشی ہیں، ہاں ان تمام اضلاع میں کام کرنے والے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز نے گذشتہ تین سالوں میں فیول کی مد میں کتنے فنڈز نکالے، ان کی تنخواہیں کتنی ہیں انہوں نے اپنے کتنے لوگ بھرتی کروائے،
یہ ایسے سوال ہیں جس پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بیشتر ڈی ایس اوز کو غصہ آتا ہے.اوران کے پاس اس بارے میں کوئی جواب نہیں ہوتا، حالیہ مثال پشاور کے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز سے سال 2022 میں کئے جانیوالے مقابلوں کی تفصیلات ہیں جس کے بارے میں رائٹ ٹو انفارمیشن میں گذشتہ دو ماہ قبل دی جانیوالی درخواست ہے جس پر راقم کو معلومات تو تاحال نہیں دی گئی البتہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر پشاور نے پشاور کے مقامی تھانے میں راقم پر جھوٹا الزام عائد کرتے ہوئے اپنے گھر تک پیچھا کرنے کا الزام عائد کیا ہے. جو وہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہیں اور جھوٹے ایف آئی آر کے اندراج کرنے پر تعزیرات پاکستان کے سیکشن 182 کے تحت کارروائی کیلئے بھی مقامی تھانے میں درخواست دی گئی ہیں اور پشاور کے مقامی عدالت میں ہتک عزت کا کیس بھی دائر کیا جارہا ہے.لیکن ان سب چیزوں کے باوجود کیا سرکاری ملازمت حاصل کرکے عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے ملازمین خصوصا سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران کیا آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہیں یہ وہ سوال ہیں جو اس ڈیپارٹمنٹ کے اوپر بیٹھے افراد کو خود سوچنے کی ضرورت ہے.
بات کہیں اور نکل گئی کوئٹہ میں ہونیوالے نیشنل گیمز کے حالیہ مقابلوں کے بعد اولمپک ایسوسی ایشن خیبر پختونخواہ نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر انہیں فنڈز ملتا تو یہ کارکردگی پہلے سے بھی بہتر ہوتی اولمپک ایسوسی ایشن کے مطابق کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا مینڈیٹ نہیں بلکہ یہ اولمپک ایسوسی ایشن کے زیر انتظام ہونے چاہئیے اسی طرح انہوں نے نیشنل گیمز کے انعقاد سے قبل ا نٹرڈسٹرکٹ مقابلوں پر خاموشی اختیار کرنے پر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ مقابلے کروائے جاتے تو نئے کھلاڑی نکل آتے اور ہماری کارکردگی پہلے سے بھی بہتر ہوتی.اولمپک ایسوسی ایشن کی منطق اپنی جگہ کسی حد تک ٹھیک بھی ہے لیکن اولمپک ایسوسی ایشن خیبر پختونخواہ کو بھی اس معاملے میں خود احتسابی کی ضرورت ہے کہ وہ ایسوسی ایشنز سے یہ پوچھ لیں کہ چونتیسویں نیشنل گیمز میں ان کی کارکردگی بہتر کیوں نہیں.ایسے ایسوسی ایشنز بھی ہیں جن کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہیں ان میں کچھ ایسوسی ایشنز تو ایسے ہیں جو گھروں تک محدود ہیں اور یہ سب باتیں اولمپک ایسوسی ایشن خیبر پختونخواہ کے اپنے ہی لوگ کررہے ہیں کہ چند ایسوسی ایشنز کو مخصوص گھرانوں تک محدد کیا گیا ہے.کیا اولمپک ایسوسی ایشن اس معاملے میں احتساب کرے گی اور خراب کارکردگی دکھانے والے ایسوسی ایشنز کو کھڈے لائن لگائے گی یا پھر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا.اسی طرح تین کروڑ اسی لاکھ روپے کے فنڈز پر یہ سوال بھی مختلف ایسوسی ایشنز اٹھا رہی ہیں کہ نیشنل گیمز میں اتنی رقم تو نہیں لگتی جتنی کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے دی جس کی منظوری سابق ڈی جی سپورٹس خالد خان نے دی تھی اور کیا اس کا آڈٹ بھی ہوگا یا پھر تین کروڑ اسی لاکھ روپے بس خرچ ہوگئے والا سلسلہ ہی چلے گا.
دوسری طرف صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں بیٹھے افراد کو اپنے گریبانوں میں خود جھانکنے کی ضرورت ہے، رشتہ داروں، ممبران اسمبلی کے چہیتوں کی بھرتیوں سے لیکر ٹھیکیوں سے اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو فرصت ملے تو انہیں سال 2018 میں صوبائی حکومت کی جانب سے جاری ہونیوالی سپورٹس پالیسی کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا بنیادی کام کیا ہے انہوں نے نرسری سطح پر کھیلوں کے فروغ کیلئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں اور انہوں نے گذشتہ کئی سالو ں میں کتنے کھلاڑی پیدا کئے، ٹیبل ٹینس سے لیکر سکواش تک کے کھیل میں توباقاعدہ مستقل اور ڈیلی ویجز کوچز ہیں مگر اب یہی کوچز کہہ رہے ہیں کہ ڈیپارٹمنٹ نے سارے کھلاڑی ہمارے لئے ہیں کیا اس طرح کے بیانات دیکر کوچز اپنی رزق کو حلال کررہے ہیں اور کیا ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہئیے
.کیا نیشنل گیمز سے قبل راتوں رات کھلاڑی دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں چلے گئے، اگر اولمپک کے قانون کے مطابق 365 دن کا قانون موجود تھا تو پھر کھلاڑیوں کے دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں جانے کے بعدصوبے کی طرف سے کسی نے اعتراض اٹھایا. جواب نفی میں ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود آنکھیں بند کرکے کھیلوں کے بہتری کی دعوے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے نعرے ہی ہیں، صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ابھی تک انڈر 21 کے کئی سو کھلاڑیوں کوماہانہ کی بنیاد پر اعلان کردہ وظیفہ نہیں دے سکی ہیں لیکن سال 2022 میں ایسے مقابلے بھی کروائے گئے جن سے کھلاڑی نہیں نکل سکے، انٹر یونیورسٹی گیمز پر کروڑوں روپے لگوائے گئے، لاکھوں روپے کا سامان مختلف کھیلوں کا مختلف یونیورسٹیوں کو دیا گیا جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈومین ہی نہیں تھا اور یونیورسٹی سطح پر بائیس سے پچیس سال کی عمر میں کھلاڑی تو بن بھی نہیں سکتے لیکن جب نیشنل گیمز میں تیاری کیلئے اتھلیٹکس اور فٹ بال کی پریکٹس کی بات آئی تو انہی یونیورسٹیوں سے پندرہ ہزار روپے فی یوم کے حساب سے پیسے مانگے اور یوں عوامی ٹیکسوں کا پیسہ یونیورسٹیوں کے کھیل پر اڑایا گیا، صرف مردان کے چہیتے کو خوش کرنے کے چکر میں اور اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ یہ "وزیر کھیل کا برین چائلڈ ہے” حالانکہ اس وقت بھی راقم نے لکھا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب یہی ڈیپارٹمنٹ کہے گا کہ "وزیر کھیل کا دماغ خراب ہوا ہے” جو اس طرح کے فضول مقابلے منعقد کروارہا ہے جس سے فائدہ کچھ نہیں البتہ فنڈز ضائع کیا گیا اور وقت نے ثابت کردیاکہ آج پچیس ہزار روپے ماہانہ پر سیکورٹی جیسے سخت ڈیوٹی کرنے والے ڈیلی ویجز تین ماہ سے تنخواہ کیلئے رو رہے ہیں لیکن انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں اور صرف لارے ہی دئیے جارہے ہیں اور کھلاڑی بھی کوئی پیدا نہیں ہوئے، ویسے اس کا ذمہ دار کون ہے. یہ وہ سوال ہیں جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے ہوئے افراد تو نہیں سوچتے لیکن ٹیکس جمع کرکے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے والے عوام کو خود سوچنے کی ضرورت ہے.