تین دہائیوں کی لگن اور میرٹ مسترد، خیبر پختونخوا کے واحد بین الاقوامی سطح کے کرکٹ کوچ کو بے روزگاری کا سامنا”
مسرت اللہ جان
پشاور…تین دہائیوں سے کرکٹ کوچنگ سے وابستہ عرفان بابو واقعات کے ایک مایوس کن موڑ پر آگئے ہیں معاذاللہ خان کرکٹ اکیڈمی کے واحد بین الاقوامی سطح کے کرکٹ کوچ عرفان بابو کو ڈیلی ویج کوچ کے عہدے سے برطرف کیے جانے کے بعد بے روزگاری کا سامنا ہے۔کم و بیش تیس سال پر محیط ایک متاثر کن کوچنگ کیرئیر کے ساتھ عرفان بابو نے متعدد قومی اور بین الاقوامی کرکٹرز کو تربیت دی ہے، جنہوں نے پاکستان کرکٹ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سال 1993 سے اپنے کوچنگ کیرئیر کے سفر کا آغاز کرنے کے بعد عرفان بابو نے بے مثال لگن کا مظاہرہ کیااور اس نے پشاور جم خانہ کے گراؤنڈ پر پرائیویٹ کوچنگ میں اپنا الگ مقام بنایا. اور ان کی اسی مہارت نے انہیں جلد ہی معاذ اللہ خان کرکٹ اکیڈمی سٹی برانچ میں پوزیشن حاصل کی۔ اس کی کوچنگ کی صلاحیت نے اس کی ٹیموں کو فرسٹ کلاس بین الاقوامی سطح کی ٹیموں کو شکست دینے، پہچان اور تعریف حاصل کرنے کا باعث بنایا.
عرفان بابو کی کوچنگ کا سفر صرف مردوں کی کرکٹ تک محدود نہیں رہا۔ انہوں نے خیبر پختونخواہ کی خواتین کی کرکٹ کے مستقبل کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 2000 سے 2005 تک خیبرپختونخوا کے پہلی خواتین کرکٹ ٹیم کے سلیکٹر اور کوچ کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے، انہوں نے نبیلہ گلزار، حاجرہ اور فرزانہ احسان جیسی کرکٹر کو مواقع دئیے اور ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔عرفان بابو نے ہی دہلی کی خواتین کرکٹ ٹیم کو دہلی میں جا کر ٹریننگ دی.
تاہم، اپنی نمایاں کامیابیوں اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ان کے طالب علموں کی طرف سے بین الاقوامی شناخت کے باوجود عرفان بابو خود کہیں پر بھی مستقل پوزیشن حاصل نہیں کر پائے. اس کا اصولی کوچنگ کا انداز، جس میں چاپلوسی اور گندی زبان سے پرہیز شامل ہے، ایک ایسے شعبے میں رکاوٹ بنتا ہے جہاں ایسا رویہ پسندیدگی حاصل کرتا نظر آتا ہے۔
پشاور کی کرکٹ کمیونٹی سسٹم کی انصاف پسندی پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے کیونکہ عرفان بابو جیسے تجربہ کار اور انتہائی باصلاحیت کوچ کواس وقت بے روزگاری کا سامنا ہے جب کہ کم میرٹ والے اعلیٰ عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ اب یہ ذمہ داری صوبائی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ اور کرکٹ حکام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ میرٹ اور لگن کی بنیاد پر کام کرنے والے عرفان بابو کو مستقل کوچ بنایا جائے حالانکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے آج کل اہم عہدوں پر تعینات ہیں اسی طرح ان کے شاگرد بھی کرکٹ کے نمایاں کرکٹرز میں شامل ہیں.
عرفان بابو نے اپنے کوچنگ کے کیرئیر کے دوران عمران سینئر، افتخار، یاسر شاہ، شاہین شاہ، ان کے بڑے بھائی ریاض آفریدی، ریاض کائل ان کے بھائی خالد کائل جو اومان کرکٹ ٹیم کا حصہ ہے ان جیسے محمد فیاض، جبران خان، نثار آفریدی، یاسر عرفات، فہد زمان، الطاف، عاکف جاوید جیسے کھلاڑی شامل ہیں.اسی طرح ان کے دریافت کردہ کھلاڑیوں میں افغانستان کے محمد شیر، جاوید احمد زئی، گل بدین، شفیق اللہ شفیق، آفتاب عالم، خالقداد نوری، عبدالواسع جیسے کھلاڑی ان کے شاگردوں میں شامل ہیں.
خطے میں کرکٹ کوچنگ کا مستقبل توازن میں لٹکا ہوا ہے۔ اگر عرفان بابو جیسے تجربہ کار اور اصول پسند کوچز کو اسی طرح نظر انداز کیا جاتا رہا تو اس شعبے سے وابستہ کرکٹر جو مستقل میں کوچز کو میدان میں آنا چاہتے ہیں انہی عرفان بابو کی موجودہ صورتحال اس شعبے میں آنے سے روک سکتی ہیں جس سے طویل عرصیتک کرکٹ کے کھیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ کرکٹ کمیونٹی #SaveIrfanBabu کے پیچھے نکلے اور کوچنگ میں میرٹ اور لگن کی اقدار کو برقرار رکھے۔