عمحترم ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ کی خدمت میں عرض داشت…
جناب عالی!
آپ سے اس خط کے ذریعے کچھ گزارشات عرض ہیں چونکہ آپ پی ایم ایس ہیں اس لئے آپ کی تعیناتی دو سا ل کیلئے ہوتی ہیں ان دو سالوں میں ابتدائی چھ ماہ تو ویسے ہی گزر جاتے ہیںاور آپ کو ان چیزوں کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا کیونکہ اس ڈیپارٹمنٹ کی بنیادی اور اہم چیز کھیل ہیں اور ابتدائی چھ ماہ کھیل ہی کھیل میں گزر جاتے ہیں ،
کچھ گزارشات ڈائریکٹریٹ کی بہتری کیلئے ہے .آپ سے قبل جو صاحب اس کرسی پر کم و بیش سات ماہ رہے ، انہوں نے آغاز میں جنرل مشرف کی طرف بہتر اقدامات اٹھائے لیکن اللہ بھلا کرے ، کچھ لوگ جو ان کی گالیاںبھی سن کر بھی سر جھکا لیتے تھے مگر انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اس ڈائریکٹوریٹ کا بیڑہ غرق کیا.
عرصہ سات ماہ میں کھیلوں کی وزارت میں کچھ نہیں ہوا البتہ ذاتی پسند ناپسند پر بہت سارے فیصلے کئے گئے جس کی وجہ سے اور تو کچھ نہیں ہوا البتہ سب سے زیادہ متاثرہ ڈیلی ویج ملازمین اور کوچز ہوئے ،
ان کے آگے جی حضوری اور گالیاں سننے والے صاحب اور گگھی باندھے کچھ افراد جن میں کچھ "اے اے ” بھی شامل ہیں اور تو کچھ نہیں کیا البتہ ان کے تبادلے کے بعد بھی ان سے پرانے تاریخوں میںبہت سارے کاغذات پر دستخطیں لی .شائد یہ ان کے رشتہ دا ر ملازم کے کام آسکیں.
جناب ڈی جی صاحب!
یہ نہیں اس ڈائریکٹریٹ میں سارے فرشتے ہیں یا پھر سارے چور ہیں ، جس طرح ہاتھ کی پانچ انگلیاں یکساں نہیں ہوتی اسی طرح اس ڈائریکٹریٹ میں بھی صورتحال ہے لیکن سابق ڈی جی نے "دا ھم غل دے "دا ھم غل دے ” والا قصہ کرکے سب کو کھڈے لائن کر دیا تھا .اور پھر اتھلیٹکس ، ویٹ لفٹنگ ، سوئمنگ ، فٹ بال اور بیڈمنٹن میں بہت کام کیا ، اور من پسند فیصلے کئے کیونکہ یہ کھیل وہ اور ان کے خاندان کے لوگ کھیلتے تھے .الفاظ تو بہت سخت ہیں لیکن آپ سے پہلے والے ڈی جی کو بھی کچھ لوگوں نے اپنا خدا مانا تھا ، اور اس کے آگے صرف سجدہ نہیں کرتے تھے باقی سب کچھ کرتے تھے ، اس سے پہلے بھی یہی سلسلہ تھا اور ہو سکتا ہے کہ آپ کے ساتھ بھی یہی سلسلہ ہو ،یہی وجہ ہے کہ کچھ ایسے فیصلے بھی کئے گئے جس کی وجہ سے آج صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بیشتر ملازمین عدالتوں میں ہیں اور کھیلوں کی طرف توجہ نہیں دے رہے.
جناب عبدالناصر صاحب!
سب سے اہم مسئلہ اس وقت فٹ بال ، اتھلیٹکس کے کھیل سمیت ڈیلی ویجز ملازمین اور کوچز کی تعیناتی ہے ، فٹ بال اور اتھلیٹکس کے کھلاڑیوں کی تعداد اس وقت روز بروز کم ہوتی جارہی ہیں ، ایک پرائیویٹ اکیڈمی کو طارق ودود بیڈمنٹن ہال میں جگہ دیدی گئی جہاں پر خواتین والی بال کی اکیڈمی بننی تھی ، کیونکہ وہ محفوظ اورالگ جگہ تھی لیکن اب وہاں پر گانوں کی ریکارڈنگ کا سلسلہ بھی چلتا ہے.شائد اتھلیٹکس ڈھول کی تھاپ پر بہتر ایکسرسائز کرسکتے ہیں ہمیں تویہاں آکر پتہ چلا لیکن اس ڈائریکٹریٹ میں خواتین کی کھیلوں کیلئے الگ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہے انہوں نے اس معاملے پر خاموشی دکھائی شائد انہیں بتایا نہیں گیا . اتھلیٹکس گراﺅنڈ نہیں بن رہا اور سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سے اتھلیٹکس کے کھلاڑی ختم ہوتے جارہے ہیں اور لگتا یہی ہے کہ اگلے دو سال میں اتھلیٹکس گراﺅنڈ تو بن جائیگا لیکن پھر اخبارات، سوشل میڈیا پر اشتہار دینا پڑے گا کہ اتھلیٹکس کی ٹریننگ کیلئے کھلاڑیوں کی ضرورت ہے.اسی طرح فٹ بال گراﺅنڈ کی بھی ہے ,کچھ عرصہ قبل یہاں پر ڈیڑھ سو کے قریب کھلاڑی فٹ بال کے ہوا کرتے تھے لیکن اب بمشکل دس کھلاڑی آتے ہیں حالانکہ یہاں پر فٹ بال گراﺅنڈ بن گیا ہے اگر ان کھلاڑیوں کو پریکٹس کی اجازت دی جائے جو باقاعدہ ممبرشپ کرکے آتے ہیں تو کم از کم کھلاڑیوں کا کھیل تو متاثر نہیں ہوگا .حالانکہ اسی گراﺅنڈ سے گولڈن بوٹ حاصل کرنے والے ضلع خیبر کے کھلاڑی نے تربیت حاصل کی ، بہت سارے فٹ بال کے کھلاڑی دبئی ، کینیڈا میں کلب سے وابستہ ہوئے اور ابھی یہ حال ہے کہ صرف دس کھلاڑی رہ گئے ہیں.ان کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.
جناب ڈی جی صاحب!
اس وقت دوسرا بڑا مسئلہ ڈیلی ویج ملازمین کا ہے جن کے ساتھ کوچز بھی ہیں ، کم و بیش تین سو کے قریب اہلکاروں کو جنہوں نے کم و بیش سات سے آٹھ سال گزارے تھے انہیں فارغ کیا ، اگر ان میں ایسے لوگوں کو فارغ کیا جاتا جو گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں تو پھر بھی کچھ بہتر ہوتا لیکن یہاں پر ایسے نوجوانوں کو بیروزگار کیا گیا جن کی کمائی سے ان کے گھر چلتے تھے اور گذشتہ چھ ماہ سے ان نوجوانوں پر کیا گزرتی ہیں یہ بتانے والا حال نہیں ، یہی حال مختلف کھیلوں کے کوچز کا بھی ہے ، اس سے قبل کچھ کوچز جو سابقہ ڈی جی کے "گڈ بک” میں شامل تھے انہیں تو لیا گیا لیکن جن کا حق تھا انہی نکال دیا گیا جو ان کوچز کیساتھ ظلم و زیادتی ہے.جن کی بحالی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے.
ان حالات میں ایک تجویز جو آپ کو کھیلوں کی بہتری اور ان ڈیلی ویجز کی روزگار کے حوالے سے ہیں اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ سابق ڈی جی سپورٹس اسفندیار خٹک کی طرح سپورٹس کمپلیکس کے آمدنی سے ان ڈیلی ویج ملازمین کو تنخواہ دینے کے اقدامات کرے تو کم از کم نہ صرف ڈیلی ویج ملازمین و کوچز کے روزگار کا مسئل حل ہوگا بلکہ آمدنی کے غائب ہونے کے واقعات بھی کم ہو جائیں گے. کیونکہ اس وقت بیشتر آمدنی مینوئل طریقے سے جمع ہوتی ہیں اسی طرح بعض جگہوں پر فیسوں میں ڈنڈی مار ی جاتی ہیں اگر ڈنڈی مارنے کا سلسلہ روک گیا اور اسی کے سات سرکاری اکیڈمیوں میں مفت ممبرشپ ، ماہانہ فیس کے خاتمے کا سلسلہ ختم کیا گیاتو آمدنی بہتر ہوگی اور ڈیلی ویجز ملازمین، کوچز کے ملازمین کا سلسلہ بھی ختم ہو جائیگا.
جناب عبدالناصر صاحب!
اپنے اگلے خط میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تربیت کیلئے آنیوالے کھلاڑیوں کو صرف کھیل نہیں بلکہ انہیں تمیز ، طور طریقے، کردار اور مذہب سے وابستگی کے حوالے سے بہت کچھ بتانے کی ضرورت ہے. کیونکہ کچھ کھیلوں کے علاوہ بیشتر کھیلوں میں کھلاڑیوں کو کھیلوں کی تربیت تو دی جاتی ہیں لیکن انہیںتمیز ،ان کی کردار سازی پر توجہ نہیں دی جاتی .اس بار ے میں گذشتہ روز پیش آنیوالے ایک واقعہ کی تفصیلات بھی اسی طرح خط کے ذریعے آپ کیساتھ شیئر کی جائیگی کہ کس طرح معاذ اللہ خان کرکٹ اکیڈمی کے "سینئر کھلاڑیوں” نے بدتمیزی کی انتہا کردی. جس پر ان کے ہیڈ کوچ نے بعد میں معذرت تو کردی لیکن یہ واقعہ کیوں پیش آیا.اور اس کا بیک گراﺅنڈ کس نے بنایا. اور یہاں پر سال 2012 میں کونسا واقعہ پیش آیا تھا جسے رپورٹ بھی کیا گیا تھا لیکن کچھ نہیں ہوا. انشاءاللہ بہت جلد اس حوالے سے اسی طرح خط کے ذریعے آگاہ کیا جائیگا.
شکریہ
مسرت اللہ جان