کوئٹہ واقعی ایچ بی ایل پی ایس ایل کا گلیڈی ایٹرز
لاہور 14 فروری 2024 :
پاکستان سپر لیگ جو 2016 میں شروع کی گئی تھی قوم کی کرکٹ کی صلاحیتوں کے ایک متحرک ثبوت کے طور پر کھڑی ہے جس میں چھ فرنچائزز کے گلدستے کا خوبصورت منظر موجود ہے۔ یہ چھ ٹیمیں ٹی ٹوئنٹی میں عزت اور شان کے لیے ُپرجوش طریقے سے مقابلہ کرتی رہی ہیں۔
یہ فرنچائزز پاکستان میں کرکٹ کے پھلنے پھولنے کی علامت ہیں، جو ٹیلنٹ کو اجاگر کرنے اور کھلاڑیوں کو قومی ٹیم میں جانے کے لیے ایک اہم راستہ فراہم کا بہترین ذریعہ ہیں۔ پی ایس ایل کے اثرات کرکٹ کے میدان سے باہر تک پھیلے ہوئے ہیں، کھیل کی معیشت کو تقویت مل رہی ہے اور ملک بھر میں کھیل کا معیار بلندی کی طرف گامزن ہے۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز، ایک ایسی ٹیم ہے جس نے عزت، وقار اور عزم کی اقدار کو یکجا کیا ہوا ہے۔ کرکٹ سے محبت کرنے والے اور کامیاب بزنس مین ندیم عمر کی ملکیت میں فرنچائز کو کوئٹہ کے لیے ایک شناخت قائم کرنے کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا-
ندیم عمر کی اپنے مقصد سے وابستگی شروع سے ہی عیاں تھی۔ ان کے اسٹریٹجک اقدامات میں لیجنڈری سر ویوین رچرڈز کو مینٹور ۔ قابل اعتماد معین خان کو ہیڈ کوچ اور سرفراز احمد کو بطور کپتان شامل کرنا شامل تھا۔ ابتدائی چار سالوں میں ان فیصلوں کا بہت اچھا نتیجہ نکلا، جس کا اختتام 2019 میں فرنچائز کے پہلے ٹائٹل پر سامنے آیا۔
اب جبکہ فرنچائز اپنے نویں سال میں داخل ہو رہی ہے، اس نے نہ صرف کوئٹہ اور بلوچستان کا ایک مثبت امیج بنایا ہے بلکہ مقامی ٹیلنٹ کو بروئے کار لانے میں بھی اہم پیش رفت کی ہے۔ ندیم عمر اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کس طرح کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے بلوچستان کے بارے میں منفی تاثر کو ختم کیا اور صوبے کی شناخت بنی۔ انٹر اسکول ٹورنامنٹ، رمضان کرکٹ اور یہاں تک کہ خواتین کے ایک کامیاب ٹورنامنٹ جیسے اقدامات نے تاثرات کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ندیم عمر کہتے ہیں کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے بارے میں سب سے بڑی مثبت بات یہ ہے کہ ہم نے کوئٹہ اور بلوچستان کا سافٹ امیج بنایا ۔ٹیم نے جس طرح کھیلا اس سے بلوچستان کے بارے میں منفی سوچ ختم ہو گئی کہ وہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ ہم نے صوبے میں انٹر اسکول متعارف کرایا، رمضان کرکٹ کا انعقاد کیا
اور کھلاڑیوں اور شائقین کو یکساں طور پر متحرک کیا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ہم نے خواتین کا ٹورنامنٹ کامیابی کے ساتھ ایسے ماحول میں منعقد کیا۔ پوری دنیا اور بالخصوص پاکستانی عوام کے لیے پیغام یہ ہے کہ کوئٹہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگ آکر پروگرام منعقد کر سکتے ہیں۔ میرے لیے سب سے پیارا اور ناقابل فراموش لمحہ وہ استقبال ہے جو بلوچستان کے لوگوں نے ہمیں دیا جب ہم نے 2019 میں صوبے کا ٹرافی ٹور کیا۔
گلیڈی ایٹرز فخر کے ساتھ بسم اللہ خان، عبدالناصر، عبدالواحد بنگلزئی، محمد اصغر، حسیب اللہ خان، اور جلات خان جیسے کھلاڑیوں کا ذکر کر سکتی ہے جنہیں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں منتخب کیا گیا تھا۔ کوئٹہ میں انتہائی موسمی حالات ٹرائلز، کیمپس اور میچز کے انعقاد کے لیے چیلنج کا باعث ہیں، لیکن ندیم عمر کو یقین ہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی کوششوں کے آنے والے برسوں میں مزید نتیجہ خیز نتائج برآمد ہوں گے۔
فرنچائز کو محمد حسنین، نسیم شاہ، صائم ایوب، اعظم خان جیسے کھلاڑیوں کے کریئر کی تشکیل کا سہرا بھی جاتا ہے ۔
ندیم عمر کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں رائلے روسو ، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز میں ایک برانڈ بن گئے۔ سرفراز احمد کا کپتان بننا، محمد نواز اعتماد کی وجہ سے پھل پھول رہے ہیں اور میر حمزہ اور عثمان خان جیسے کھلاڑیوں کا تعارف۔
گزشتہ چار برسوں میں چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود ندیم عمر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ترقی سے مطمئن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا انعام بلوچستان کے لوگوں کی طرف سے پیار اور خلوص ہے جو ٹیم پر فخر کرتے ہیں۔
چونکہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کامیابی کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے وہ نہ صرف ایک فرنچائز بلکہ مقامی کرکٹرز کے لیے روشنی کی کرن کے طور پر کھڑی ہے جو پاکستان کے کرکٹ کے منظر نامے میں ٹیلنٹ کو مزید اجاگر کرنے کا وعدہ کیے ہوئے ہے۔