کھیلوں کا ایک ہزار سہولیات منصوبہ، سفید ہاتھی ،فائدہ کس کا، کھلاڑی کہاں پر ہیں
مسرت اللہ جان
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کے کھیلوں کا ایک ہزارسہولیات منصوبہ جو پاکستان تحریک انصاف کے سابق دور میں شروع کیا گیا او ر اس کا بنیادی مقصد کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی تھا ،
یونین کونسل سے لیکر تحصیل سطح تک اس منصوبے میں کھیلوں کی سہولیات فراہم کرنا تھی لیکن یہ منصوبہ ابتداءہی سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کیلئے سفید ہاتھی بن گیا کروڑوں روپے اس منصوبے کے تحت لگائے گئے
جس میں یہ دعوے کئے گئے کہ اب ان علاقوں میں کھیلوں کی سہولیات میسر ہونگی اور نئے کم عمر کھلاڑی سامنے آسکیںگے لیکن سال 2018سے شروع کیا جانیوالا یہ منصوبہ بیوروکریٹ کی کمائی کا اچھا خاصہ سلسلہ بن گیا.
اس منصوبے میں آغاز میں نیم سرکاری ادارے سے پراجیکٹ ڈائریکٹر کو تعینات کیا گیا جس نے اپنی تعیناتی کے دوران ایسے منصوبے بھی مکمل کئے
جس کی ضرورت ہی نہیں تھی اس منصوبے کا بنیادی مقصد ایسی جگہوں پر کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی تھی لیکن یہ بیورو کریٹس اور سرکاری اداروں کیلئے سہولیات کی فراہمی کا منصوبہ بن گیا ،
جس کاثبوت پولیس لائن ، آفیسرز میس سمیت دیگر سرکاری جگہوںپر کھیلوں کی سہولیات فراہم کی گئی حالانکہ یہ اس کا بنیادی کام نہیں تھا بلکہ یہ تحصیل سطح کے سہولیات کی فراہمی کا منصوبہ تھا
اور اس کا مقصد کم عمر نئے کھلاڑی پیدا کرنے تھے لیکن بجائے اس کے سرکاری اداروں ، یونیورسٹیوں میں کروڑوں روپے لگائے گئے .جہاں پر نئے کھلاڑی تو نہیں آئے البتہ بیورو کریٹس کو کھیلوں کی سہولیات میسر آئیں.
ان منصوبوں میں بعض جگہوں پر ایسے غیر معیاری کام بھی کروائے گئے جس کی مثالیں تاحال موجود ہیں ، اسلامیہ کالج پشاور میں ہاکی گراﺅنڈ سمیت ، حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں بیڈمنٹن کے غیر معیاری سنتھیٹک کورٹ ،
پشاور سپورٹس کمپلیکس میں غیر معیاری سنتھیٹک کورٹ شامل ہیںجس پر کئی مرتبہ ری پیئرنگ کی گئی ، کھیلوں کے ایک ہزار سہولیات منصوبے کے تحت پشاور میں 173.85 ملین روپے بائیس مختلف منصوبوں پر لگائے گئے .
پشاور کے منصوبوں میں شہید بے نظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی میں بیڈمنٹن ہال کی تعمیر، حیات آباد سپورٹس کمپلیکس اور پشاور سپورٹس کمپلیکس میں چڑھنے والی دیواروں کی تعمیر شامل ہے۔ یونیورسٹی میں مصنوعی ٹینس کورٹ کی تعمیر،
اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں مصنوعی ٹینس کورٹ کی تعمیر، پولیس لائن پشاور میں مصنوعی ٹینس کورٹ کی تعمیر، پیراڈ اکیڈمی پشاور میں سنتھیٹک ٹینس کورٹس کی تعمیر، سنٹرل جیل پشاور،
پشاور سپورٹس کمپلیکس میں حیات آباد اوپن ایئر جم۔ طہماس اسٹیڈیم پشاور میں فٹسال اسٹیڈیم، پشاور قیوم سپورٹس کمپلیکس میں اسکواش کورٹس کی تعمیر کے ساتھ اسکواش کورٹس،
بیڈمنٹن کورٹ میں فرش، زرعی یونیورسٹی پشاور کے جمنازیم ہال میں مصنوعی فرش، حیات آباد سپورٹس کمپلیکس میں سنتھیٹک فلور، جمنازیم کورٹس کے رینکنگ کورٹس میں سنتھیٹک فلور۔
سول آفیسرز میس پشاور میں، حیات آباد اسپورٹس کمپلیکس میں جمنازیم کی تزئین و آرائش، سول آفیسرز میس پشاور میں مصنوعی واکنگ ٹریک اور سول آفیسرز میس پشاور میں سنتھیٹک لان ٹینس کورٹ شامل ہیں.
صوبے کے مختلف علاقوں سمیت چترال میں ایسے جگہوں پر منصوبے کروائے گئے جہاں پران سہولیات کی ضرورت بھی نہیںتھی . کھیلوں کا ایک ہزار سہولیات منصوبے میں سکولوں میں سکواش کورٹ بھی بنائے گئے
جو تعمیر سے لیکر آج تک استعمال ہی نہیں ہوئے ، بے نظیر یونیورسٹی میں واقع سکواش کورٹ اور نوے کلی میں واقع سکول میں واقع سکواش اس کی مثال ہے.اسی طرح کلائمبنگ وال جیسے غیر ضروری منصوبوں پر کم و بیش ایک کروڑ روپے لگائے گئے ،
اوپن ائیر جیم نتھیا گلی ، ایبٹ آباد سمیت ایسی جگہوں پر لگائے گئے جو کسی بھی ادارے کے حوالے نہیں کئے گئے اور آج حال یہ ہے کہ کروڑوں روپے عوامی ٹیکسوں کے لگ چکے ہیں
لیکن ان میں بیشتر منصوبے اب اس حالت میں ہیں کہ انہیں دیکھ کر افسوس کا اظہار ہوتا ہے کہ عوامی ٹیکسوں کے اس منصوبوں کی دیکھ بھال کون کرے گا.اور اس کی مانیٹرنگ کون کرے گا .
کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات منصوبے میں کتنی گاڑیاں آئی اور کہاں پر استعمال ہوئی یہ ایک الگ کہانی ہے ابھی تک ان گاڑیوں کی فہرست مرتب نہیں ہوسکی ،جس کی معلومات اور تحقیقات ضروری ہیں.
پراجیکٹ ڈائریکٹر کی سیٹ خالی ہونے کے بعد اس کی گاڑی ایک عرصہ تک استعمال ہوتی رہی جسے بعد میں سابق ڈی جی سپورٹس لیکر آئے.کھیلوں کی ایک ہزار منصوبے کے تحت استعمال ہونیوالی گاڑیوں کی فیولنگ کتنی رہی ہے
یہ بھی بڑا سوال ہے کیونکہ پانچ سو لیٹر ماہانہ فیول ایک عام سی بات ہے اور یہ صرف ایک گاڑی کی رہی ہے جبکہ اس منصوبے میں کئی گاڑیاں ہیں جس میں بہت کم کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات منصوبے میں شامل ہورہی ہیں جبکہ دیگر محکموں میں زیادہ استعمال ہورہی ہیں جس کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے.
کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات منصوبے کیلئے گذشتہ دو سالوں سے اس منصوبے کیلئے کوئی فنڈ جاری نہیں کیا گیا لیکن اس منصوبے کے تحت جاری منصوبے کہاں پرہیں اور کس حال میں ہیں یہ بھی بڑا سوال ہے.
جو موجودہ حکومت کے کرنے ہیں. حال ہی میں پشاور کے علاقے چوہا گجر اور لیلونئی میں واقع سپورٹس کمپلیکس کی ڈی نوٹیفائی کرنے کے حوالے سے بڑا انکشاف ہوا ہے
اس بارے میں انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کو علاقہ مکینوں کی جانب سے درخواستیں بھی موصول ہوئی ہیں جس میں کرپشن کے الزامات عائد کئے گئے ہیں
اسی طرح لیلونئی سپورٹس کمپلیکس کیلئے مختص رقم کو واپس سپورٹس ڈائریکٹریٹ لانے کیلئے فنانس ڈیپارٹمنٹ کے جعلی اعلامیہ نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اس منصوبے کی قلعی کھول دی ہیں. جس کی تحقیقات کی ضرورت ہے.
اس منصوبے کے تحت بننے والے منصوبوں کی نگرانی انجنیئرنگ ونگ خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کی ، جس کی تعمیراتی کام کا اندازہ کسی بھی جگہ پرجاکر کیا جاسکتا ہے
لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس منصوبوں کی شفافیت پر بڑا سوال بھی سابق ڈی جی سپورٹس کے دور میں اٹھایا گیا جس کے بعد ڈی پوٹیشن پر آنیوالے ایک اہلکار سپورٹس ڈائریکٹریٹ چھوڑ کر چلے گئے
کیونکہ یہ چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھی کہ تیرہ سے زائد منصوبے ان صاحب کے رشتہ دار کے حوالے کئے گئے تھے جس پر تحقیقات بھی کی گئی لیکن اس کے بعد خاموشی چھا گئی .
نئی آنیوالی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات منصوبے کی تحقیقات کرے لیکن یہ تحقیقات بھی محکمانہ انکوائری نہ ہوبلکہ جوڈیشل انکوائری ہو کہ اس منصوبے میں کئے جانیوالے منصوبے اس وقت کس پوزیشن میں ہیں ، کتنی فنڈز جاری کئے گئے ،
کتنی گاڑیاں لائی گئی اور کتنی فیولنگ کے نام پر اڑائی گئی اسی طرح ایسی جگہوں پر جہاں پر کھیلوں کی سہولیات ضروری تھی انہیں کن مقاصد کیلئے ڈی نوٹیفائی کروایا گیا اوراس کے فائدے کس نے اٹھائے.
کیونکہ موجودہ حالات میں دو سال سے زائد عرصہ گزر گیاپراجیکٹ بند ہیں لیکن اس کے ملازمین موجود ہیں جنہیں تنخواہیں بھی ادا کی جارہی ہیں ٹی اے ڈی اے کی مد میں پیسے بھی نکل رہے ہیں
لیکن سہولیات نہیں ،نہ ہی نئے کھلاڑی سامنے آئے . ٹھیک ہے کہ صوبائی حکومت نے کھیلوں کی سہولیات کی فراہمی کیلئے یہ منصوبہ شروع کیا لیکن اس سے کس نے فائدے اٹھائے ا اور آغاز سے لیکر اب تک یہ کن لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں یہ سوال کرنے کا ہے .