پشاور سپورٹس کمپلیکس: لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں مشینوں کی خرابی، جگاڑ اور اخراجات
مسرت اللہ جان
پشاور سپورٹس کمپلیکس میں واقع لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم، جس پر 2022 میں پاکستان سپورٹس بورڈ نے دس کروڑ روپے سے زائد کی رقم خرچ کی تھی، اب شدید مسائل کا شکار ہے۔
اس سٹیڈیم کے ٹرف کو پانی فراہم کرنے والی مشینیں خراب ہوچکی ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف ٹرف کو پانی نہیں پہنچ رہا بلکہ مشین میں کام کرنے والے اہلکاروں کو بھی اضافی مشکلات کا سامنا ہے۔ مشین میں پانی ڈالنے کا عمل آدھ گھنٹے تک جاری رہتا ہے، جس کے بعد پانی کی نکاسی شروع ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خرابی چک وال کی وجہ سے ہے، جو کہ مشینوں کے درست کام میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔ اس مسئلے پر اسپیشل انتظامیہ کی طرف سے پہلے کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی،
لیکن ٹرف کی خرابی اور پانی کی کمی کے باعث ایڈمنسٹریٹر پشاور سپورٹس کمپلیکس کو اس معاملے کی اطلاع دی گئی۔ حیران کن طور پر، اس معاملے کو حل کرنے کی بجائے ایڈمنسٹریٹر نے "جگاڑ” کا طریقہ اختیار کیا
اور چک وال کی بجائے پائپ میں سوراخ کر کے پانی فراہم کرنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ایک ایل بو اس میں ایڈجسٹ کر دی گئی، جس کے باعث پانی بہنے کے ساتھ ساتھ مشین بھی زنگ آلود ہو رہی ہے۔
سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس معاملے میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی غفلت سامنے آئی ہے۔ ایل بو کے اخراجات صرف پانچ سو روپے ہیں، لیکن صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے اس پر گیارہ ہزار روپے خرچ کیے ہیں۔ اس بات کی تصدیق اکاونٹ سیکشن نے بھی کی ہے، جس کے مطابق ان اخراجات میں کوئی واضح جواز نہیں ہے۔
اس معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ نے اکاونٹ سیکشن کو اس کی تحقیقات کرنے کی ہدایت دی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے کم اخراجات کے باوجود اضافی رقم کیسے خرچ کی گئی؟ اور کیا اس غفلت کے نتیجے میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی بدعنوانی کا کوئی اور پہلو بھی سامنے آئے گا؟
یہ معاملہ نہ صرف پشاور سپورٹس کمپلیکس کے انتظامی مسائل کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ کھیلوں کے ترقیاتی منصوبوں میں غیر ضروری اخراجات اور بدعنوانی کا کتنا بڑا خطرہ موجود ہے۔
اس کیس کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آخرکار کھلاڑیوں اور عوام کی رقم کس طرح خرچ کی جا رہی ہے اور اس میں شفافیت کا فقدان کیوں ہے۔