پاکستان کے قومی ہیرو منصور احمد کو ہم سے بچھڑے سات سال بیت گئے
پاکستان کی جانب سے 1988 میں صدر ایوارڈ اور 1994 میں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
پاکستان کے لیے 1986 سے 2000 تک 338 بین الاقوامی میچز کھیلے
تین اولمپکس، تین ورلڈ کپ اور دس چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹس میں شریک رہے
کیریئر میں مجموعی طور پر 12 طلائی، 12 چاندی اور 8 کانسی کے بین الاقوامی تمغے شامل ہیں ۔
رپورٹ: ریحان اکرم ; پاکستانی ہاکی کے عظیم گول کیپر، ورلڈ کپ فاتح اور اولمپیئن منصور احمد کو ہم سے بچھڑے آج سات سال بیت چکے ہیں۔ 12 مئی 2018 کو دل کے عارضے کے باعث دنیا سے رخصت ہونے والے اس قومی ہیرو کی خدمات کو آج بھی کھیلوں سے وابستہ افراد خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
1994 کے ہاکی ورلڈ کپ کے فائنل میں ان کی دلیرانہ کارکردگی، جب انہوں نے پنالٹی شوٹ آؤٹ میں اپنے سینے پر گیند روک کر پاکستان کو عالمی چیمپئن بنایا، آج بھی ہاکی کے شائقین کے دلوں میں زندہ ہے۔
وہ لمحہ صرف ایک سیو نہیں بلکہ پاکستان کی ہاکی تاریخ کا وہ سنہرا ورق بن گیا جس پر آج بھی قوم کو ناز ہے۔ 1994 میں ورلڈ کپ کا فائنل پاکستان اور نیدرلینڈز کے درمیان کھیلا گیا۔ میچ 1-1 سے برابر رہا،
اضافی وقت بھی بے نتیجہ نکلا، اور فیصلہ پنالٹی شوٹ آؤٹ پر آیا۔ جب پاکستانی کھلاڑی شفقت رسول کی پنالٹی ضائع ہوئی تو فضا میں مایوسی چھا گئی۔ اسی لمحے ڈچ کھلاڑی کی پنالٹی پر منصور احمد نے بہادری سے سینہ آگے کیا اور گیند روک کر پاکستان کو نئی زندگی دی۔ یہی وہ لمحہ تھا جس نے انہیں لیجنڈ بنا دیا۔
منصور احمد کا شمار دنیا کے کامیاب ترین گول کیپرز میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان کے لیے 1986 سے 2000 تک 338 بین الاقوامی میچز کھیلے۔ وہ تین اولمپکس، تین ورلڈ کپ اور دس چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹس میں شریک رہے۔
1986 کے ورلڈ کپ میں برانز، 1990 کے ورلڈ کپ میں سلور اور 1994 کے ورلڈ کپ میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1992 کے بارسلونا اولمپکس میں سلور میڈل، 1990 بیجنگ ایشین گیمز میں سونے کا تمغہ اور چیمپئنز ٹرافی میں متعدد تمغے حاصل کیے۔
ان کے کیریئر میں مجموعی طور پر 12 طلائی، 12 چاندی اور 8 کانسی کے بین الاقوامی تمغے شامل ہیں۔ 1994 میں پاکستان کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز ملا، 1994 میں ہی ورلڈ الیون اور 1996 میں آل ایشین اسٹارز ٹیم کا حصہ بنے،
جبکہ چار بار ٹورنامنٹ کے بہترین گول کیپر قرار دیے گئے۔ 1996 کے اٹلانٹا اولمپکس میں وہ پاکستانی دستے کے فلیگ بیئرر بھی تھے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 1988 میں صدر ایوارڈ اور 1994 میں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد منصور احمد نے کوچنگ اور کمنٹری کے شعبے میں قدم رکھا، تاہم ان کی زندگی کے آخری سال نہایت تکلیف دہ ثابت ہوئے۔ وہ دل کی ایک شدید بیماری میں مبتلا ہو گئے
اور ان کے لیے ہارٹ ٹرانسپلانٹ ناگزیر ہو چکا تھا۔ اپریل 2018 میں انہوں نے میڈیا پر بتایا کہ وہ بھارت سے طبی ویزا کے خواہشمند ہیں تاکہ جان بچانے کے لیے علاج ممکن ہو سکے۔
یہ معاملہ خبروں میں نمایاں رہا، مگر افسوس کہ وہ اس مرحلے تک نہ پہنچ سکے۔ کراچی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیز میں زیر علاج منصور احمد 12 مئی 2018 کو انتقال کر گئے۔
انہیں 13 مئی کو کراچی میں سپرد خاک کیا گیا۔ اپنی زندگی کے آخری تین برس انہوں نے شدید بیماری میں گزارے، اور موت سے کچھ ہفتے قبل پیس میکر اور سٹنٹ کی پیچیدگیوں کا سامنا کرتے رہے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بریگیڈیئر خالد سجاد کھوکھر نے ان کی قبر پر گلدستہ رکھوایا، جبکہ کوآرڈینیٹر حیدر حسین نے فاتحہ خوانی کی۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ریاستی سطح پر انہیں وہ پذیرائی نہ مل سکی جس کے وہ حقدار تھے۔ ایک ایسا ہیرو جس نے قوم کو دنیا میں سر بلند کیا، خاموشی سے رخصت ہو گیا اور آج یادوں میں بسا ہے۔
آئیے آج کے دن ہم اس عظیم قومی کھلاڑی کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں یہ شعور دے کہ ہم اپنے ہیروز کی زندگی میں بھی اور بعد از وفات بھی ان کی قربانیوں کو سچے دل سے یاد رکھ سکیں۔
اگر آپ چاہیں تو میں اس مکمل تحریر کو ایک شائع کے قابل پی ڈی ایف یا ڈیزائنڈ فائل کی صورت میں بھی بنا سکتا ہوں۔ کیا آپ کو اس کی ضرورت ہے؟