کلب رجسٹریشن کے نام پر جو تماشہ لگایا گیا ہے وہ کرکٹ کی تباہی پر ختم ہوگا

تین سال میں کرکٹ کی تباہی اور ناقص حکمت عملی کے سوا کوئی موثر کام نہیں ہوا

کلب عہدیداران کو لیول ون کوچ رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک کمپیوٹر آپریٹر بھی رکھنا پڑے گا

کلب کرکٹ کے حوالے سے سابق جوائنٹ سیکریٹری KCCA جمیل احمد کی ایک معلوماتی اور اچھی تحریر ۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کرکٹ کے اصل وارثوں کو لاروارث کرکے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلانے کی تیاری کی جارہی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی سی بی کرکٹ کے حقیقی وارثوں سے بہت زیادہ خوف زدہ ہے اسی لئے تین سال میں اب تک صرف کرکٹ کی تباہی اور لاحاصل منصوبہ بندی کے سوا کچھ بھی سامنے نہیں آیا مگر ایک بات کی انہیں داد دینی پڑتی ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پورے کرکٹ ڈھانچے کو روندتے چلے گئے وزیراعظم کے ویژن کے مطابق ہم نے آسٹریلین طرز پر چھہ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن تو تشکیل دیدیں مگر گراس روٹ لیول ، کلب کرکٹ ، ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن ، ڈیپارٹمنٹل اور ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن کی قربانی دے کر ملکی کرکٹ کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا ہے پی سی بی کے اقدامات سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آۓ ہوۓ ابھی تین سال ہوۓ ہیں اسی لئے پاکستان کرکٹ کی ہر پالیسی نئے سرے سے مرتب دی جارہی ہیں ان کی حکمت عملی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شائد پی سی بی کے موجودہ عہدیداران نے یہ تصور کرلیا ہے کہ وہ تاقیامت انہی عہدوں پربراجمان رہیں گے اسی لئے کرکٹ کے حقیقی وارثوں کو کلب کرکٹ کی رجسٹریشن میں اُلجھا کر پرسکون انداز میں ٹھنڈی مشینوں میں بیٹھ کر اپنی مدت ملازمت طوالت دینے میں مصروف ہیں پی سی بی نے کلب رجسٹریشن کے نام پر جو تماشہ لگایا ہوا ہے یہ پاکستان کرکٹ کی تباہی پر جاکر ختم ہوگا اس نظام میں اتنی پیچیدگیاں ہیں کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس کا کامیاب ہونا ممکن نظر نہیں آتا اگر پی سی بی کا یہی طرز عمل رہا تو آنے والے چند سالوں کے بعد ہم کوالٹی پلئیرز ڈھونڈ رہے ہونگے پی سی بی گذشتہ دو ڈومیسٹک سیزن سے اپنی مرضی کی ٹیمیں تشکیل دے کر ایک خود ساختہ نظام کے تحت فرسٹ کلاس کرکٹ تو کرارہے ہیں مگران دو سالوں میں کھلاڑیوں کو کس کارکردگی پر منتخب کیا گیا ہے اس کا جواب کوئی نہیں دیتا کیونکہ کھلاڑیوں کو پرکھنے کا کوئی پیمانہ تو ہے ہی نہیں جس کو بنیاد بنا کر کسی کھلاڑی کا انتخاب کیا جاسکے کیونکہ گذشتہ تقریباً دو سالوں سے نہ کلب کرکٹ بحال ہوسکی ہے اور نہ ہی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا جاسکا ہے البتہ دباؤ میں آکر پی سی بی نے صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداران کے ناموں کا اعلان تو کردیا ہے مگر وہ بھی ابھی تک غیر فعال ہیں اور تین چار ماہ کا عرصہ گذرنے کے باوجود اُن کی جانب سے کوئی مثبت پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے جہاں تک کلب رجسٹریشن کے دوسرے مرحلے کا تعلق ہے وہ کلبوں کے صدور کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے اتنا لمبا اور پیچیدہ نظام متعارف کرایا گیا ہے کہ کلب کے صدر کو اپنے کلب کے لئے جہاں ایک لیول ون کوچ رکھنا ضروری ہے وہیں ایک کمپیوٹر آپریٹر رکھنا بھی ضروری ہوگیا ہے کلب کا صدر جو پیسہ کھلاڑیوں کی کارکردگی کو سنوارنے اور اُن کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتا تھا وہ لیول ون کوچ اور کمپیوٹر آپریٹر کی تنخواہوں پر خرچ کیا کرے گا پی سی بی کا یہ جابرانہ طرز عمل بتا رہا ہے کہ اب متوسط طبقے والے کو کرکٹ کھیلنا اور کھلانا خاصہ مشکل ہوجاۓ گا پی سی بی شادیانے بجا رہی ہے کہ کلب رجسٹریشن میں پورے ملک سے 30 فیصد نئے کلبوں نے اضافی رجسٹریشن کرائی ہے یہ صرف اور صرف گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے کیونکہ پی سی بی کی جانب سے آخری مرتبہ کلب اسکروٹنی 2013 میں ہوئی تھی کلب اسکروٹنی ہر چھ سال بعد ہوتی تھی اس طرح 2019 کلب اسکروٹنی کا سال تھا مگر اُسی سال پی سی بی نے تمام ڈسٹرکٹ کرکٹ ایسوسی ایشن اور ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشن تحلیل کردیں جس کی وجہ سے کلب اسکروٹنی کا عمل بھی کھٹائی میں پڑ گیا اس طرح گذشتہ آٹھ سال میں کوئی نیا کلب رجسٹرڈ نہیں ہوا تھا تو گذشتہ آٹھ سالوں سے جو کلب رجسٹریشن کے منتظر تھے انہوں نے 2021 میں اپنے کلب رجسٹرڈ کراۓ ہیں اس کا کریڈٹ پی سی بی کو ہرگز نہیں جا تا بلکہ سسٹم کی خرابی کی وجہ سے جو تاخیر ہوئی اس وجہ سے 30 فیصد کلبوں کی تعداد بڑھی ہے اگر پرانا نظام بھی ہوتا اور اسکروٹنی کے عمل سے گُذر کر کلب آتے تو شاید اس سے بھی زیادہ کلب رجسٹرڈ ہوتے پی سی بی کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے تقریباً دو سال سے پورے ملک میں کلب کرکٹ کا انعقاد نہیں کیا جاسکا ہے جس کی وجہ سے کلب کے صدور دباؤ میں آۓ ہوۓ ہیں اور اُنہے کلب کی ساکھ کو بحال رکھنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے کیونکہ جب کلب کرکٹ ہی نہیں ہوگی تو آپ کتنے عرصے تک کھلاڑی کو دلاسہ دے کر بیرون ملک جانے سے اور دوسرے کھیلوں کی طرف مائل ہونے سے روک سکتے ہیں بہر حال دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ گذشتہ چھ سالوں میں کلب کے صدور کی پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا 15 جون 2015 کو پی سی بی کے سابقہ بورڈ آف گورنرز نے ماڈل آئین 2015 متعارف کرایا تھا اور کلب کے صدور کو اس آئین کو ایک Undertaking کے ساتھ اپنانے کو کہا گیا تھا جس پر کئی کلبز کے صدور کو سخت تحفظات تھے کیونکہ اس آئین کے تحت کلب کے صدور کو کئی پابندیوں میں جکڑ دیا گیا تھا واضح رہے کہ ماڈل آئین 2015 کو اپنانے کا کڑوا گھونٹ کلب کے صدور نے صرف کھلاڑیوں کے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوۓ پیا تھا واضح رہے کہ چند قدغن کے باوجود کلب آئین 2015 کے نفاذ سے کلب کرکٹ متاثر نہیں ہوئی تھی ابھی کلب کے صدور ماڈل آئین 2015 کی بندشوں سے باہر نہیں آۓ تھے کہ پی سی بی میں تبدیلی کا ایک نیا تحفہ کلب آئین 2019 متعارف کرادیا گیا اور کلب کے صدور کو ایک اور نئے امتحان میں ڈال دیا گیا غرض یہ کے کلب کے صدور کو لگاتار امتحانات کی چکّی میں پیسا جارہا ہے جب یہ پستے پستے سرمہ بن جاۓ گا تب پاکستان کرکٹ کا حال ہاکی سے زیادہ مختلیف نہیں ہوگا حیران کن بات یہ ہے کہ 2013 کی کلب اسکروٹنی کے مطابق پورے ملک میں فعال کلبز (Active clubs )اور (Playing rights) رکھنے والے کلبوں کا پورا ریکارڈ پی سی بی کے پاس موجود ہے پھر یہ دوبارہ کلب رجسٹریشن کا ڈرامہ کیوں رچایا گیا سمجھ سے بالاتر ہے پی سی بی کے اس غیر ضروری عمل سے یقیناً کلب کے صدور سخت ذہنی اذیت اور پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں بالکل آسان طریقہ یہ تھا کہ پی سی بی کی جانب سے پورے ملک میں دو سال تک 2018-2019 اور 2019- 2020 میں کلب کی سطح پر دو ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا گیا تھا ان ٹورنامنٹس میں حصّہ لینے والے کلبز کو براہ راست رجسٹریشن دے دی جاتی اور نئے کلبوں سے رجسٹریشن کے لئے درخواستیں وصول کرلی جاتیں اس طرح اتنا وقت بھی ضائع نہیں ہوتا اور گراس روٹ کی سطح پر اتنا بڑا خلا بھی پیدا نہیں ہوتا اور کلب کرکٹ بھی متاثر نہیں ہوتی اور پورے ملک میں کلب کرکٹ کا انعقاد بھی ممکن ہوجاتا اس ضمن میں پی سی بی کو صرف سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن اور صوبائی کرکٹ ایسوسی کے نمائندوں کو نامزد کرکے با اختیار بنانا تھا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا واضح رہے کہ کلب کے عہدیداران کو گذشتہ پچاس سال میں کلب چلانے میں اتنی دشواری کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا جتنا گذشتہ دو سالوں میں کرنا پڑا ہے گذشتہ دو سالوں میں سواۓ آن لائن ڈرامہ بازی اور کاغذی کاروائی کے کچھ بھی نہیں ہوا ہے دراصل کلب رجسٹریشن کا کام پی سی بی کا ہے ہی نہیں بلکہ یہ کام تو نصف صدی سے ایسوسی ایشن کرتی چلی آرہی ہیں اس سلسلے میں پی سی بی کو سابقہ کے سی سی اے کی کامیاب رجسٹریشن پالیسی سے رہنمائی حاصل کرنا چاہئیے تھی جس میں کلب عہدیداران کی سہولیات کو مدنظر رکھا گیا تھا اور جسے کراچی کرکٹ کی نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ کی اُس عظیم اور مایہ ناز شخصیت پروفیسر سید سراج الاسلام بخاری سابق صدر و سیکریٹری کے سی سی اے اور دس سال تک DTMC( Domestic Tournament Monitoring Committee کے چئیرمین کی حیثیت سے کام کر نے والی تجربہ کار شخصیت نے مرتب کیا تھا اور کلب رجسٹریشن کا وہ طریقہ کار اتنا آسان تھا کہ کلب کے صدر اور سیکریٹری کو کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی پی سی بی ہر چھ سال بعد متعلقہ ایسوسی ایشن سے مشاورت کے بعد کلب کی اسکروٹنی کرتا تھا اور اسکروٹنی کے بعد پی سی بی کارکردگی کی بنیاد پر کلبوں کو (Voting rights) اور (Playing rights) دیتا تھا اور یہ نظام سالہ سال سے کامیابی سے چل رہا تھا پی سی بی کی جانب سے کلب رجسٹریشن کا جو طریقہ کار متعارف کرایا گیا ہے یہ پاکستان میں کامیاب نہیں ہوگا ضروری نہیں ہے کہ کلب رجسٹریشن کا جو نظام انگلینڈ یا آسٹریلیا ترقی یافتہ ممالک میں کامیاب ہے وہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی کامیاب ہوجاۓ گا

چل کے تُم غیر کے قدموں پہ کہیں کہ نہ رہے
اپنے قدموں پہ اگر چلتے تو چلتے رہتے

نچلی سطح پر کرکٹ کو بحال کرنے میں پی سی بی جو تاخیری حربے استعمال کررہا ہے اُس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کلب کے صدور کو سال دو سال بعد پھر اسی طرح کے امتحان سے گُذرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ نامزد کردہ صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشنز تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گذرنے کے باوجود بھی غیر فعال ہیں پی سی بی نے انہیں ایک سال کے لئے نامزد کیا ہے اور ان کی یہ مدت بڑھائی بھی جاسکتی ہے اس سےمحسوس یہ ہوتا ہے کہ پی سی بی ٹوٹل کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے غرض یہ کہ 2022 کے وسط تک تو صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشنز کا غیر فعال سیٹ اپ تو رہے گا اور اگر انکی مدت میں توسیع کردی جاتی ہے تو یہ سلسلہ 2023 تک بھی جاسکتا ہے اور 2023 ملک میں الیکشن کا سال ہوگا اور اگر الیکشن کے نتیجے میں ملک میں کسی قسم کی تبدیلی آتی ہے تو پھر کلب کے صدور کلب آئین 2023 کا سامنا کرنے کے لئے بھی تیار رہیں کیونکہ ہم تو یہی دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو پی سی بی میں بھی تبدیلی آتی ہے آخر میں کلب عہدیداران کی پریشانیوں کو مد نظر رکھتے ہوۓ پی سی بی کو ایک تجویذ دینا چاہتا ہوں کہ کلب رجسٹریشن کا دوسرا مرحلہ جاری ہے اور بظاہر اس نظام میں کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نظر نہیں آرہی لیکن انتظامی طور پر اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے اس سلسلے میں صوبائی کرکٹ ایسوسی کو فعال اور با اختیار بنا کر جہاں جہاں صوبائی کرکٹ ایسوسی ایشن کے دفاتر ہیں وہاں “ کلب رجسٹریشن ہیلپ لائن “ کے نام سے کاؤنٹر قائم کئے جائیں اور مرحلہ وار ہر سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے کلب عہدیداران کی رہنمائی فرماتے ہوۓ کلب رجسٹریشن کے عمل کو مکمل کرایا جاۓ تاکہ وہ سُکھ کا سانس لے سکیں

error: Content is protected !!