پاکستان کے کم عمر ترین ورلڈ سنوکر چیمپئن احسن رمضان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے سرپرستی نہ کی تو پروفیشنل سنوکر کے لیے انگلینڈ چلا جائوں گا۔احسن رمضان نے گزشتہ ماہ ورلڈ سنوکر چیمپئن کا ٹائٹل محض 16 برس کی عمر میں جیتا تھا، وہ عالمی اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے کم عمر ترین کیوئسٹ ہیں۔احسن رمضان کے والدین نہیں ہیں، ان کی بہن نے انہیں بہت سپورٹ کیا، وہ لاہور کے جس کلب میں ٹریننگ کرتے ہیں اسی کلب میں گزر بسر کرتے ہیں۔احسن رمضان کا کہنا ہے کہ یہ کمرہ ہی میرا سب کچھ ہے، اس کمرے کی میری زندگی میں جتنی اہمیت ہے وہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا، مجھے اس کمرے میں آکر سکون ملتا، میری اس کمرے میں نیند مکمل ہوتی ہے اور میں تازہ دم ہو کر ٹریننگ پر توجہ دیتا ہوں۔پاکستانی کیوئسٹ نے بتایا کہ ورلڈ چیمپئین بننے سے قبل کلب ٹورنامنٹ جیت کر جو رقم ملتی تھی وہ اپنے اوپر لگاتا تھا
میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے تھے، والدین نہ ہونے کی وجہ سے میں تعلیم بھی جاری نہ رکھ سکا، میرے پاس پیسے ہی نہیں تھے اور تعلیم پر اخراجات بہت زیادہ تھے اس لیے میں نے سارا فوکس کھیل پر کر رکھا، میرا ٹارگٹ یہی تھا کہ میں نے 20 برس کی عمر تک عالمی ٹائٹل جیتنا ہے، 16 برس کی عمر میں ورلڈ چیمپئین بننے کا سوچا بھی نہیں تھا۔احسن رمضان نے بتایا کہ مجھے حکومت کی جانب ابھی کچھ نہیں ملا، اب حکومت تبدیل ہو گئی ہے، اس حکومت سے مجھے بڑی امیدیں ہیں، انہوں نے ماضی میں بھی اسنوکر کا عالمی چیمپئین بننے پر محمد آصف کو سراہا
اب مجھے اعتماد ہے کہ مجھے بھی سراہیں گے۔ورلڈ سنوکر چیئمئن کا کہنا تھا میں چاہتا ہوں کہ مجھے کسی ڈپارٹمنٹ میں نوکری ملے تاکہ میں ساری توجہ کھیل پر مرکوز رکھوں، اگر ایسا نہیں ہو گا تو پھر میں کوئی کاروبار شروع کر دوں گا جس سے میرا کھیل متاثر ہو گا کیونکہ میں کھیل کو وقت نہیں دے پائوں گا۔احسن رمضان نے کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے سرپرستی نہ ملی تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں ایک اچھا اسپانسر تلاش کروں جو 10، 15 لاکھ روپے کے اخراجات کرے اور میں انگلینڈ میں پروفیشنل سنوکر کے لیے کوالیفائی کرنے والا ٹورنامنٹ کھیلوں اور وہ جیت کر میں دو سال کے لیے انگلینڈ میں پروفیشنل سنوکر کا اہل ہوجائوں۔