بچپن اور پچپن کا محاورہ، کھیل اور تعلیم
تحریر ; مسرت اللہ جان
بچپن میں سنتے تھے کہ پڑھو گے لکھو گے تو بنو گے نواب، کھیلو گے کھودو گے تو ہوگے خراب، خیر ہم بچپن سے اتنے پڑھاکو تو نہیں تھے لیکن اوسط درجے کے طالب علم تھے اوپر سے ہمارے داجی گل کی چارسدہ وال چپل اور ان کی بھاری بھر ہتھیلی کا تھپڑ ہمیں کھیلوں سے زیادہ سبق پڑھنے پر مجبور کرتا تھا
کاش ہم بھی اچھے طالب علم ہوتے یا پھر رٹے مار کر مقابلے کا امتحان پاس کرتے تو "وڈے صاحب”تو بن جاتے.لیکن کھیلنے کا شوق نہیں چھوٹا اس لئے جب ہم اپنے سکول میں سینئر طلباء میں شامل ہوگئے یعنی نویں کلاس میں پہنچے تو فٹ بال اور ہاکی کے کھیل فل بیک کی حیثیت سے کھیلے، ان دونوں میدانوں میں بھی عام سے کھلاڑی تھے،
لیکن ہمیں دوسروں کو دوڑانے میں مزا آتا تھا، ان دنوں ہمیں سکول میں سٹک، کٹ اور شوز ملتے تھے جو ٹورنامنٹ ختم ہونے کے بعد واپس کرنے ہوتے تھے لیکن پھر بھی ہم بہت خوش تھے کہ چلو ہم نے سپورٹس شوز جو آج سے کم و بیش تین دہائی پہلے بہت کم کھلاڑیوں کو کھیلنے کیلئے ملتے تھے ان میں ہم بھی شامل تھے. خیر اپنی بات پر آتے ہیں بچپن کا سفر تو ختم ہوا جو اب اگلے چند سالوں میں پچپن تک اگر اللہ کو منظور ہوا تو پہنچ جائیگا
لیکن بچپن اور پچپن کے اس سفرتک یہ محاورہ اب تبدیل ہوگیا یعنی کھیلو گے کھودو گے تو بنو گے نواب، پڑھو گے لکھو گے تو ہوگے خراب ، اور یہ واقعی سچ ہے.
اور یہ سچ انتہائی کڑوا ہے کہ آج سے اگر تین دہائی قبل کھیلوں کے میدان نہیں تھے تو کھلاڑی موجود تھے، بیشتر افراد ہم جیسوں کی طرح گراؤنڈز پر، روڈز پر دوڑیں لگاتے،
ان دنوں سکولوں میں کھیلوں کے میدان میں بھی ہوتے تھے ان دنوں میں گراؤنڈز نہیں ہوتے تھے لیکن کھلاڑی موجود تھے.اب جبکہ گراؤنڈز موجود ہیں، سہولیات موجود ہیں تو کھلاڑی موجود نہیں.آج سے کم و بیش دو دہائی قبل گراؤنڈز میں کھیلنے پر کسی کی پابندی نہیں،
کھیلوں کے بیشتر ڈیپارٹمنٹ میں چند گنتی کے لوگ ہوتے، 1998 میں جب ہم نے روزنامہ آج پشاور میں کھیلوں کی رپورٹنگ کا آغاز کیا تھا اس وقت پشاور سپورٹس بورڈ ہوا کرتا تھا، ایک ڈائریکٹر تھا، دو اسسٹنٹ تھے، دو کلاس فور تھے چند مالی تھے اور ایک شریف قسم کے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر تھے،
جو سائیکل پر آتے جاتے یہی بورڈ پورے صوبے میں کھیلوں کے مقابلوں کے انتظامات کرتا، فنڈز مہیا کرتا،ان دنوں اس وزارت کی جانب کسی کا خیال نہیں تھا اس لئے زیادہ تر وزراء بھی اس سے بھاگ جاتے تھے
کہ اس میں کیا رکھا ہے. ان دنوں کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد پر مختلف بینک، پرائیویٹ کمپنیاں سپانسرشپ بھی کرتی تھی اور کھلاڑی بھی زیادہ آتے تھے.
شوق کی خاطر کھیلنے کیلئے آنیوالے ان کھلاڑیوں نے تعلیم پر بھی توجہ دی، کھیل پر بھی توجہ دی اور یہی وجہ ہے کہ آج بہت سارے اس زمانے کے کھلاڑی آج اپنی تعلیم اور کھیل کے بدولت اہم جگہوں پر تعینات ہیں.
پھر حالات کا پلٹا کھایا، وہ سپورٹس ڈیپارٹمنٹ جو کبھی بورڈ ہوا کرتا تھا اب ڈائریکٹریٹ بن گیا، کھیلوں کے بیشتر میدانوں کے ارد گرد بڑی بڑی دیواریں کھڑی کردی گئی، گراؤنڈ میں آنے جانے والوں پر پابندیوں کا آغاز ہوا اور ان سے وصولیوں کا آغاز ہوگیا
اس شعبے میں ایسے لوگ آگئے جنہیں اس شعبے سے دلچسپی صرف اتنی ہے کہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ مقابلوں کے انعقاد میں ان کا فائدہ کیا ہے، انہیں ٹی اے ڈی اے کتنا ملے گا،
کمیشن کتنا ملے گا، بیرون ملک ٹورکا امکان ہے کہ نہیں، بس یہی سے کھیلوں کی بربادی کا آغاز ہوگیا کیونکہ کھیلوں میں بیشتر نمایاں آنیوالے کھلاڑی انتہائی غریب لوگ ہوتے ہیں جو اسی شعبے میں آکر اپنا نام بناتے تھے، کسی بھی صوبائی یا قومی سطح کے کھلاڑی کی اگر ہسٹری دیکھی جائے
تو حیرت انگیز طور پر ایک ہی مماثلت نظر آتی ہے اور وہ غربت اور محنت، اور ان دونوں چیزوں کی بدولت انہوں نے معاشرے میں اپنے لئے مقام پیدا کیا لیکن اب ایسا نہیں.
کھیلوں کے میدانوں پر مسلط کئے جانیوالے سرکاری افسران جن میں بیشتر "وڈے صاحب” لوگ ہیں یعنی امتحان پاس کرکے آتے ہیں، رٹا کرکے آنیوالوں میں کچھ کے دماغ رٹے سے خراب ہوجاتے ہیں اور وہ سب کو اپنا غلام سمجھتے ہیں، کھلاڑی سے لیکر اس شعبے سے وابستہ ہر ایک کو اپنا ڈرائیور سمجھتے ہیں
جو ان کیلئے دروازہ کھولے یا پھر ان کے سامنے جی حضوری کرے.یہی وجہ ہے کہ ان کا بیشتر وقت "میٹنگ” میں مصروف ہیں پر گزرتا ہے حالانکہ اندرون خانہ دفاتر میں چائے کے دور چلتے ہیں جہاں پر کنٹریکٹر، ٹھیکیداروں سے کمیشن اور تعیناتیوں پر بات چیت ہوتی ہیں.دو بندوں کے مابین ہونیوالے اس معاملے کو بھی صاحب لوگ میٹنگ کا نام دیتے ہیں
اور کھیل سے وابستہ ہر شخص کیلئے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا، حالانکہ "میٹنگ میٹنگ ” کا ڈرامہ کرنے والے یہ صاحبان اسی کھیل اور انہی کھیلوں کے میدانوں کو آباد کرنے کی تنخواہیں لیتے ہیں لیکن بجائے اس کے کہ وہ کھیلوں، کھلاڑیوں کو سپورٹ کرے اپنی افسری جتاتے ہیں، حالانکہ اگر اگر کھیلوں کا
ڈیپارٹمنٹ موجود ہے تو ان جیسوں کو جنہیں پاکستان میں افسری ملی ہوئی ہیں افغانستان جیسے ملک میں بھی لوگ "باتھ رومز کی صفائی "کیلئے بھی کوئی تعینات نہ کرے.
الفاظ بہت زیادہ سخت ہے لیکن یہ کھیل اور کھلاڑیوں کیساتھ کتنا ظلم ہے کہ غریب آدمی کا بچہ کسی بھی گراؤنڈز میں نہیں جاسکتا، اگر کوئی ایسوسی ایشن مضبوط ہے
یا پھر اس ایسوسی ایشن کے مشران دبنگ قسم کے ہیں تو پھر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران ان کے سامنے "بھیگی بلی” بنے ہوتے ہیں اور اگر کوئی ایسوسی ایشن کمزور ہے یا پھر اللہ میاں کی گائے، تو ان کیلئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران "بدمعاش بنے ہوتے ہیں، کسی بھی گراؤنڈ میں داخل ہونے کیلئے ممبرشپ کے نام پر ہزاروں روپے فیس کی وصولی ابھی بھی جاری ہے
اور اسے دگنا کرنے کیلئے میٹنگ کے سلسلے جاری ہے.ٹیبل ٹینس کے بال سے لیکر بیڈمنٹن، آرچری، ٹینس، کرکٹ، باکسنگ، ہاکی، فٹ بال سمیت کم و بیش پینتیس ایسے کھیل جو اولمپک کیساتھ رجسٹرڈ ہیں ان کا سامان اتنا مہنگا ہے کہ دس میں سے صرف ایک ہی کھلاڑی خرید سکتا ہے باقی نو کو دینے
کیلئے کچھ نہیں، نہ ہی کٹس، نہ ہی شوز اور نہ ہی کوئی اور سہولت، بجائے کھلاڑیوں کو دینے کے سپورٹس کے شعبے سے وابستہ ڈیپارٹمنٹ ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ غریب کے بچے اپنی ممبرشپ فیس بھی جمع کریں گے، سامان بھی لیں گے اور ان کے کوچز سے ٹریننگ لیں گے اور پھر صوبے کا نام روشن کرینگے اور ان حالات میں اگر کوئی مشکل سے نکل بھی آئے گا
تو سپورٹس کے شعبے کے صاحب لوگ یہ توقع کرینگے کہ ان کے دفتر پر جی حضوری کرینگے تبھی انہیں سہولیات مل سکیں گی.دوسری صورت میں "صاحب میٹنگ میں ہیں "والے جملے ہی سننے کو ملیں گے.
خیبر پختونخواہ میں کھیلوں کے کسی بھی ایسوسی ایشنز کا نمائندہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ گذشتہ بیس سالوں میں کوئی ایسا اجلاس کسی بھی کھیلوں کی وزارت یا ڈائریکٹریٹ نے طلب کیا ہو،
ایسوسی ایشنز کے نمائندوں کو درپیش مسائل پر بات کی ہو، کھلاڑیوں کی سہولیات کے حوالے سے ان سے تجاویز لی ہو، کئی پروپوزل لیا ہو، کھلاڑیوں کا ڈیٹا لیا ہو یا دیا ہو، اس بات کا دعوی کوئی بھی نہیں کرسکتا کہ کھیلوں سے وابستہ کسی بھی افسر نے جو اپنے آپ کو کتنا ہی "ایماندار” قرار دیتا ہو اس نے ایسوسی ایشن کے نمائندوں سے انفرادی طور پر یا تمام ایسوسی ایشنز کو طلب کرکے بات کی ہو، سہولیات سے لیکر کوچز، ٹریننگ، کھلاڑیوں، مسائل سمیت کسی بھی شعبے پر بات کی ہو، ایسے میں کھلاڑی کیسے پیدا ہونگے کھیلوں کے میدان کیسے آباد ہونگے.
ہاں اس کے مقابلے میں کھیلوں سے وابستہ ڈیپارٹمنٹ کے افراد مقابلوں کے انعقاد کے پروپوزل پر خوش ہوتے ہیں، جو وہ خود کرانا چاہتے ہوں، یا پھر کنٹریکٹر کنٹریکٹر کی براہ راست میٹنگ سے لیکر بہت سارے معاملات، جس میں مالی طور پر کمیشن ملنے کا امکان ہو وہ بخوشی یہ صاحب لوگ کراتے ہیں، کیا ان حالات میں کھیلوں کے میدان آباد ہونگے یا پھر کھیلوں کے میدان سے ٹھیکیدار نکلیں گے
ایسے ٹھیکیدار جو جی حضوری، کمیشن ادا کرکے کام نکالنا جانتے ہو انہیں ا سے کوئی غرض نہیں کہ کھیل اور کھلاڑی تباہ و برباد ہوگئے، میدان خالی ہوگئے اور نوجوان مثبت کے بجائے منفی سرگرمیوں کی جانب راغب ہونے لگے ہیں ہاں انہیں اپنے "بھرے پیٹوں "کی زیادہ فکر ہے جنہیں مزید بھرنے کیلئے وہ بہت کچھ کرنے کو تیار رہتے ہیں.#