دل جلے کا سپورٹس رپورٹر کے نام خط
مسرت اللہ جان
دنیا میں سب سے زیادہ لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں جو سچ بولتے ہیں مجھے آپ سے نفرت ہے.کیونکہ آپ کی ایک سچ کی وجہ سے مجھے نقصان ہوا.لیکن اسی نقصان نے مجھے بعد میں حقیقت سے روشناس کرادیا کہ معمولی نقصان نے مجھے بہت بڑے نقصان سے بچا دیا.لیکن میں آپ کو ایک سچ لکھ رہا ہوں شائد آپ کو بھی برا زیادہ برا لگے اور جن سے متعلق ہے انہیں بھی بہت زیادہ برا لگے گا لیکن یہ سچ ہے اور اگر کوئی اس کی تحقیقات کرسکتا ہے تو کرلے ، بے شک اس میں 100 فیصد سچائی ہے.
مسٹر سپورٹس رپورٹر ..
ابھی آپ نے آواز اٹھائی ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں جعلی کاغذات پر بھرتی ہونیوالے تائیکوانڈو کے کھلاڑی کو نکال دیا گیا ، کبھی تو آپ بھی جعلی کاغذات پر بھرتی ہونیوالوں کے خلاف لکھتے ہیں اور ابھی آپ کی بیشتر تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ان جعلی لوگوں کو سپورٹ کرتے ہیں. آپ آج کل ان صاحب کے کمرے میں زیادہ بیٹھتے ہیں جو خود جعل سازی میں ملوث ہے.شائد آپ سے تعلق رکھتے ہیں اسی وجہ سے میرا یہ سچ آپ شائع نہیں کرینگے لیکن یہ حقیقت ہے.
کیاس اسی ڈیپارٹمنٹ میں جہاںپر آپ جن صاحب کیساتھ بیٹھتے ہیں ، وہ چیف کوچ اور ایڈمن آفیسر کے دو عہدں پر تعینات نہیں ،گذشتہ چھ ماہ سے زائد وہ اسی عہدوں کے اضافی مراعات بھی لے رہا ہے ، حالانکہ
چھ ماہ بعد ایڈیشنل چارج ختم ہوتا ہے لیکن یہاں پر قانون یکساں نہیں ، کیا اسی صاحب کے رشتہ دار جو اس کے کمرے میں بیٹھے ہوتے ہیں وہ گریڈ دس میں ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ کے جعلی کاغذات پر بھرتی ہوئے کیونکہ انہوں نے جو کاغذات جمع کروائے تھے وہ ایسے کالج کے تھے جہاں پر ہاسٹل نہیں تھا لیکن اسی
جعلی کاغذات پر اسی چیف کوچ اور ایڈمن آفیسر کے رشتہ دار کو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بھرتی کرلیا گیا اس وقت کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ ایک مستقل ملازمت جعلی ڈاکومنٹ پر دی جارہی ہیں. یہی ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ جو چیف کوچ اور ایڈمن آفیسر کا رشتہ دار ہے سارا دن کمپیوٹر پر بیٹھ کر کام کرتا ہے ، حالانکہ
ہاسٹل وہ ڈیوٹی نہیں کرتا ، سارا دن بیٹھا رہتا ہے ، اب اسی چیف کوچ اور ایڈمن آفیسر پشاور سپورٹس کمپلیکس کے رشتہ دار کو گریڈ دس سے گریڈ پندرہ میں لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں حالانکہ اس
کی پروموشن کا دورانیہ بھی پورا نہیں . اور یہ سب کچھ اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں آنیوالے صاحب کے تعاون سے ہورہا ہے.کیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کوئی پالیسی ہے یا نہیں ، یا صرف رشتہ داروں کیلئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ صوبائی حکومت نے بنائی ہے.
سپورٹس رپورٹر صاحب!
مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ یہ سچ شائع کرینگے لیکن اس امید کیساتھ کہ رمضان المبارک کے بابرکت کے مہینے میں آپ اللہ کا خوف کرکے کم از کم اسے شائع ضرور کرینگے.کیا سرجن ڈاکٹر ریاض انور جو مشیر کھیل خیبر پختونخواہ بنے ہوئے ہیں. وہ گذشتہ دو ماہ کی تنخواہوں کی فہرستیں نکال کر دیکھیں گے کہ اسی چیف کوچ و ایڈمن آفیسر پشاور سپورٹس کمپلیکس کے کونسے رشتہ دار کو گھر بیٹھے تنخواہ مل رہی ہیںجو انہوں نے ڈیلی ویج میں بھرتی کیا ہے ، اور اسی برائے نام ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ جو کہ چیف کوچ کا رشتہ دار ہے کا بھائی ہے اور اسے پچیس ہزار روپے مفت میں دئیے جارہے ہیں . کیا اس کی تحقیقات ڈاکٹر ریاض انور کرینگے.
کیا اس بات کی تحقیقات بھی ڈاکٹر ریاض انور کرینگے کہ ایک مستقل ملازم جو کلاس فور ملازم ہے کے بیٹے کو تین ماہ قبل ڈیلی ویج پر لایا گیا، ایک ماہ ڈیوٹی کرنے کے بعد اسے گھر چترال بھیج دیا گیا جہاں پر اسے گھر بیٹھے تنخواہ اس کے والد دے رہے ہیں ، اور ڈیوٹی نہیں کررہے ، کیایہ حرام نہیں ، کیا اسلام میں قانون میں اس کی ممانعت نہیں .
کیا اس بات کی تحقیقات مشیر کھیل خیبر پختونخواہ کرینگے کہ سابق وزیراعلی کے ذاتی نائی کو تین ماہ قبل کس کھاتے میں لیا گیا جو آج کل ڈیوٹی بھی نہیں کررہا لیکن تنخواہیں عوامی ٹیکسوں کا لے رہا ہے.کیا صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں آنیوالا پیسہ ان کے باپ کا پیسہ ہے ، جو بغیر اشتہار دئیے من پسند افراد کوبھرتی کرکے عوامی ٹیکسوں کے پیسے دئیے جارہے ہیں.اوپر سے پھر روتے ہیں کہ تنخواہوں کیلئے پیسے نہیں ، سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے افراد کی عیاشیاں ختم ہوں تو پیسے کھلاڑی اور کھیل کے میدانوں کیلئے بچیں گے.
سچ لکھنے کے دعویدار صحافی صاحب!
ذرا یہ بھی تو لکھ دیں کہ محکمہ انٹی کرپشن ، نیب اور دیگر ادارے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کے اثاثے اور گاڑیاں چیک کریں کہ ان کے پاس اس ڈیپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے کتنا پیسہ آگیا کہ ہر کوئی اپنے آبائی علاقوں میں بنگلے بنا رہا ہے ،لگتا یہی ہے کہ ” صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ ” میں اندھیرنگری مچی ہوئی ہیں.
مسٹر رپورٹر صاحب!
حال ہی میں اسی ڈیپارٹمنٹ نے یہ کہہ کر ایک تائیکوانڈو کے ملازم کو نکال دیا کہ اس کے کاغذات جعلی ہیں ویسے آپ کا یہ سوال بنتا ہے کہ سات سال قبل جو لوگ اس کو لائے تھے ان کے خلاف کیوں کاروائی نہیں کی جارہی ، اگر سرٹیفیکیٹ جعلی ہے تو پھر کتنے ہی کھیل ہیں جس میں جعلی ڈاکومنٹس پر لوگ اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بڑے افسران نے بھرتی کرلئے ہیںلیکن ان سے سوال کرنے والا کوئی نہیں . کیا حیات آباد میں اسی ایسوسی ایشن سے وابستہ شخصیت کے رشتہ دار کو کس بنیاد پر بھرتی کیا گیا ہے. ویسے بھی تائیکوانڈو کے جس کوچ کو لیا گیا تھا وہ تو فزیکل انسٹرکٹر تھا وہ تو کوچ تھابھی نہیں ، اگر کوچ ہوتا تو پچاس ہزار روپے تنخواہ لیتا ، حالانکہ بلیک بیلٹ اسی کے پاس ہے اور سابق وزیر کھیل خیبر پختونخواہ نے اسے سرٹیفیکٹ بھی اپنے ہاتھ سے دیا ہے ، جو مسٹر رپورٹر آپ نے متعدد بار شائع بھی کی ہیں.لیکن شرم اور حیا کسی کو نہیں آیا ، لیکن یہ بات صحیح ہے کہ شرم اور حیا ان کو آتی ہے جن میں ہوتی ہے.بے شرموں کو حیا اور غیرت نہیں آتی.
اسی تائیکوانڈو کے کوچ کوچار دن قبل مشیر کھیل نے اپنے دفتر بلایا تھا اور اس کے معروضات سنے تھے پھر اسے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ کو ریفر کیا تھا ، اور ڈی جی نے ملاقات کے بعد اسے پھر دو عہدوں پر تعینات چیف کوچ اور ایڈمن آفیسر کی طرف بھیج دیا اور اب اسے یہ کہا جارہا ہے کہ” اولمپک
ایسوسی ایشن ” کو اس کی تعیناتی پر اعتراض ہے اس لئے دو مہینوں کیلئے متعلقہ کوچ گھر پر بیٹھ کر ارام کرے . اس میں حقیقت کتنی ہے یہ تو آنیوالا وقت بتائے گا.لیکن جس کوچ کی تنخواہ پچیس ہزار ہو اور اس کا اور کوئی روزگار بھی نہ ہوں ، وہ اپنے اخراجات کیسے پورا کرے گا یہ وہ سول ہے جو آپ کے کرنے
کے ہیں ، کیا آپ چیف کوچ اور ایڈمن آفیسر پشاور سپورٹس کمپلیکس سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ خود تو آپ نے اپنے ایسے رشتہ دار بھی بھرتی کئے ہیں جو گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں ان پر کسی کو اعتراض نہیں ، کیونکہ آپ موجودہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے سربراہ کے لاڈلے ہیں ا س لئے لاڈلے کچھ بھی کریں ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا.
رپورٹر صاحب!
کوچ کو بھرتی کرنے کے اس عمل میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے آپریشن سے وابستہ ایک اہم شخصیت بھی منسلک ہے جنہوں نے متعلقہ ایسوسی ایشن سے وابستہ ایک شخصیت اور اسی چیف
کوچ و ایڈمن آفیسر کے توسط سے پورا پروگرام بنا ڈالا ، اسی نے مشیر کھیل خیبر پختونخواہ ڈاکٹر ریاض انور تک رسائی حاصل کی اور اسی کے ذریعے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ایک کمزور کو بیروزگار کیا ، ان سب باتوں کے باوجود ایک مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں دیر ضرور ہے اندھیر نہیں مچی..
میرے الفاظ اور اردو کمزور ہے لیکن رپورٹر صاحب! آپ اس کو ٹھیک کرکے شائع کریں تاکہ ان منافق نما لوگوں کے چہرے سب کو پتہ چل سکیں کہ کون کون سے کھیل اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بند کمرے میں ہوتے ہیں ,
شکریہ
دل جلا