کوئٹہ وال چال ، دیواروں پر لگے اشتہارات اور کھیلوں کے مقابلے
مسرت اللہ جان
پشتو زبان میں ایک محاورہ ہے چہ خوار پر لندن ھم خوار وی ، یعنی بدقسمت لند ن بھی جائے تو بدقسمت ہی رہتا ہے ، اس محاورے کا خیال کوئٹہ کے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد ہی آیا ،کچھ دن قبل ہم نے کوئٹہ جانیوالی گاڑیوں کی حالت کے پیش نظرایک سٹور ی دی تھی
جس میں خیبر پختونخواہ کے کھلاڑی آرہے تھے اور ژوب میں ان کی گاڑی خراب ہوئی تھی ،خبر لگ بھی گئی اور بہت سارے دوست ناراض بھی ہوگئے لیکن ہم نے یہ کہا کہ سپورٹس رپورٹنگ صرف کھیلوں کی رپورٹنگ نہیں بلکہ اس شعبے سے وابستہ ہو چیز کی رپورٹنگ ہے ،
خیر بات اپنی کرتے ہیں ، پشاور سے کوئٹہ روانگی کے وقت گاڑی ٹھیک تھی لیکن مردان موٹر وے پر آنے کے بعد خراب ہوگئی اور ایسی خراب ہوگئی کہ ڈرائیور نے گاڑی کھڑی کی اور یہی کہا کہ گیئر میں مسئلہ ہے اور نئی گاڑی آرہی ہے لیکن بجائے نئی گاڑی لانے کے وہ مستری کے پیچھے چلا گیا
اور آٹھ بجے سے رات بارہ بجے تک ہم سڑک کنارے بیٹھ کر اللہ اللہ کرتے رہے . آخر کار جب گاڑی ٹھیک ہونے کی نہ رہی تو پھر مجبورا ڈرائیور دوسری گاڑی لیکر آیا ،حالانکہ وہ آٹھ بجے سے یہی کہتا رہا
کہ گاڑی آرہی ہے اور ہم مجبورا انجان بنتے رہے کہ گاڑی آجائے گی چار گھنٹے کی مسلسل کوششوںکے بعدجو گاڑی آئی ، اس کی سیٹوںپر بیٹھ کوئٹہ آنے تک جو حال ہوا ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ اپنی پشت سہلائیں ، پاﺅں کو دبائیں یا پھرنچلے حصے کو ، کیونکہ ایسی تنگ سیٹیں تھی جیسے گوئٹے مالا کے قیدی ہوں ، اور جنگلے میںبند کرکے رکھا گیاہو ، ۔
کوئٹہ تک پہنچنا ہمیں صبح دس بجے تھا لیکن دو بجے دوپہر پہنچ گئے ، گاڑی سے اتر کر سب سے پہلے جو لوگ ہماری طرف آئے وہ بھکاری خواتین تھے ، سندھی کپڑوںمیں ملبوس یہ خواتین اتنی سخت تھی کہ کئی مرتبہ کہا کہ ہم نے معافی مانگ لی کہ ہم تھکے ہوئے ہیں لیکن مجال ہے کہ ان پر کوئی اثر ہو ، انہیں دیکھ کر محسوس ہوا کہ شائد انہیں پشاور میں کہیں پر دیکھا ہوا ،
شائد وہی ہو یا پھر ہوسکتا ہے کہ بھیک مانگنے والوں کی شکلیں ایک جیسی ہوجاتی ہیں لیکن جس ڈھٹائی سے وہ ہمیں بھیک مانگنے کیلئے تنگ کرتی رہی اس سے اندازہ ہوا کہ بھیک مانگنے والوں کو اس سے کوئی غر ض نہیں کہ آپ تھکے ہوئے ہیں یا کوئی بھی صورتحال ہے ،
بس انہیں اپنی رقم سے مطلب ہے ، اپنی ہوٹل کیلئے جس ٹیکسی سے بات کرنا چاہی وہ ہمیں مہمان سمجھ کر ٹھگنے کی چکر میں تھا کہ زیادہ سے زیادہ کرایہ لے لوں ، پھر ہمارے دوستوں نے انہیں کہا کہ کرایہ تم ایرانی پٹرول کے حساب سے لو تو جاتے ورنہ نہیں ، شکر ہے کہ اسکو یہ بات سمجھ آگئی اس لئے پھر اس نے اپنے متعلقہ جگہوں تک پہنچادیا.
کوئٹہ میں نیشنل گیمز کی کوریج کیلئے بڑے بڑے نامو ر صحافی تو پہنچے ہوئے ہیں ہم بھی حیثیت بقدر جثہ کے مطابق حصہ ڈالنے کیلئے پہنچ گئے ، اگلے آنیوالے دنوںمیں کیا ہوگا یہ تو اللہ کو پتہ ہے لیکن ڈیرہ اسماعیل خان کے مغل خیل تھانے کی حدوسے لیکر کوئٹہ تک آتے ہوئے دونوں اطراف میں خوبصورت مقامات ، بڑے پہاڑوں اور بہتے پانی کے نالوں کو دیکھ کر یہی احساس ہوا کہ بلوچستان ہر جگہ اور ہر دور میں نظر انداز رہا ،
جس کے اثرات ان علاقوں کے لوگوں کے طرز زندگی سے عیاں ہیں ، ہم نے راستے میں پانی کے مٹکے سروں پر رکھی خواتین بھی دیکھی جو دور درازسے اپنے گھروں کو پانی لارہی تھی ،ایسے خوبصورت مقامات اور جگہیں دیکھیں جو سیاحتی مقامات کے حوالے سے اپنی نظیر آپ تھی ، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ،
بارش ک باعث بہہ جانیوالی سڑکوں کی حالت اور سڑک کنارے خراب ہونیوالی گاڑیوں کی حالت اور پینے کے پانی کی تلاش میں گاڑی کو روک کر پانی لینے والوں کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ بلوچستان میں کھیلوں کی کوریج کیلئے آنیوالے دیگر صوبوں کے صحافیوں کو بلوچستان کی خوبصورتی ،
ٹورازم پر بھی لکھنا چاہئیے تاکہ حکمران طبقہ اس طرف توجہ دے جس سے نہ صرف روزگار پیدا ہوگا بلکہ اس سے محرومی کا احساس بھی ختم ہوگا جو بعض جگہوں پر لوگوںسے بات چیت میں پتہ چلا.
کوئٹہ کی چائے میں کچھ خاص بات ہے ایسی خاص بات کہ جو بیان نہیں کی جاسکتی ، پینے کے بعدمحسوسکی جاسکتی ہیں، مزے میں اور تھکے جسم کو ٹکور دینے کیلئے ،
ہمارے ہا ں پشاور میں بھی متعدد کوئٹہ وال چائے کے نام سے دکانیں کھلی ہیں لیکن یاتو انہیں چائے بنانے کا طریقہ نہیں آتا یا پھر انہوں نے پشاوریوں کی رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لیا ہے چائے پی کر جسم کے کڑاکے نہیں نکلتے ، لیکن کوئٹہ میں پشاور کے مقابلے میں دگنی قیمت پر ایک پیالی چائے پی کر جو مزہ آتا ہے شائدہی کسی چیز میںہوںساتھ میں سرخ آٹے کی بنے ہوئی لمبی اور خوبصورت ڈیزائن والی روٹی،جو ہمارے ہاں کے روٹی کے مقابلے میں دگنی ہے یعنی سائز اور قیمت میں ،
لیکن اس روٹی کو چائے میں ڈبو ڈبو کر کھانے کا مزہ ہمارے ایک ساتھی کو دیکھ کر جتنا ہمیں آیا ، شائد ہی کبھی آیا ہو .
ویسے پشاور اور کوئٹہ میں ایک چیزجو مشترک ہمیں نظر آئی کہ یہاں پر بھی لوگوںکو دیواروں پرلکھنے کا شوق ہے ، کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ ان دیواروں پر لکھے گئے نعرے اور اشتہارہمارے ارد گردکی ماحول کی نمائندگی کرتے ہیں ، پشاور میں اگر آپ کو دیواروں پر اشتہار نظر آئیںگے تو اسمیں زیادہ تر تعلیمی اداروں کے اشتہارات ہوتے ہیں یہ الگ بات کہ انگریزی اور اردو کی اتنی لاتعدادغلطیاں اس میں نظر آتی ہیں کہ لگتا ہے کہ اب پینٹرز بھی انتہائی نالائق ہوگئے ہیں ،
پشاور میں تعلیمی اداروں کے اشتہارات نظر آئیں گے تو بعض مقامات پر عاملوں کے اشتہارا ت ہونگے تو بعض جگہوں پر لکھا ہوگا کہ لکھنے والا گدھے کابچہ ہے ، اب پتہ نہیں کہ لکھنے والے اپنے آپ کو گدھے کا بچہ کہتا ہے یا پھر اپنے بعدآکر لکھنے والوں کو گدھے کا بچہ کہتا ہے ، کراچی جیسے شہر میں جا کر زندہ باد مردہ باد کے نعرے دیواروں پر نظر آئیں گے اور ساتھ میں چہروں کو گورا کرنے والی کریموں اور دانوں کو ختم کرنے والے اشتہارات ملیں گے بعض جگہوں پر ویاگرا کے اشتہارات بھی دیکھنے کو ملیں گے .البتہ اس کے مقابلے میں کوئٹہ میں دوائیوں کے اشتہارات ہمیں جناح روڈپردیکھنے کو ملیں ساتھ ہی ختنہ سنٹر کے اشتہارات بھی اتنے بڑے بڑے واضح الفاظ میں دیکھنے کو ملے کہ حیرانگی ہوگی ، بلکہ ایک جگہ پرتو یہ لکھا تھاکہ جدید طریقے سے ختنہ کیا جاتا ہے خداجانے ، ختنے میں کیا جدیدیت ہوگی لیکن ایم اے جناح روڈپر واقع دیواروں پر لگے اشتہارات نے ہمیں شش و پنج میں ڈال دیا ہے.شائد کوئٹہ میں یہ بڑا مسئلہ ہے تبھی تو دیواروں پر لکھا نظر آتا ہے .
خیر آتے ہیں اپنے شعبے کی جانب ، یعنی کھیلوں کے میدان کی جانب ، نیشنل گیمز جو سال 2019 میں کوئٹہ میں ہونے تھی لیکن اس وقت پشاور میں کروائے گئے اب سال 2023 میں اس کی میزبانی کا شرف کوئٹہ کو حاصل ہورہا ہے ، مختلف مسائل اور سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث یہ مقابلے دو مراحل میں کئے جارے ہیں ، جس میں اب تک کے نتائج کے مطابق دفاعی اداروں کی ٹیمیں جن میں پاک آرمی ، نیوزی ، ائیرفورس شامل ہیں کے کھلاڑیوں نے بہترین کارکردی کا مظاہرہ کرہ ٹاپ پووزیشن حاصل کی ہیں جبکہ خیبر پختونخواہ کی ٹیمیوں نے چھٹی پوزیشن حاصل کی ہیں ،
میزبان بلوچستان ان مقابلوں میں پہلے مرحلے میں پیچھے ہیں . انفرادی مقابلے جو آج سے کوئٹہ میں شروع ہوہے ہیں دعاہے کہ نیشنل گیمز کا انعقادپرامن طریقے سے ہوں اور ان کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد سے اس صوبے میں نئے ٹیلنٹ کو آگے آنے کا موقع مل سکیں جو نہ صرف صوبائی سطح پر بلکہ بین الاقوامی فورمز پر بھی ملک کا نام روشن کرسکیں.