ماہم منظور ۔ مضبوط ارادے ہوں تو ہر چیز ممکن ہے
پاکستان میں اس وقت جتنی بھی نوجوان خواتین کرکٹرز قومی سطح پر کھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں ان کی ایک جیسی کہانی ہے اور وہ ہے مشکل حالات میں حوصلہ نہ ہارتے ہوئے کچھ کردکھانے کا عزم۔
حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ماہم منظور بھی مضبوط ارادوں کی مالک ہیں۔ وہ پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی طرف سے کھیلنے کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے سخت محنت کررہی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ان کی محنت رنگ لائے گی اور وہ بھی اپنی فیورٹ کرکٹر جویریہ خان کی طرح ایک دن ملک کا نام روشن کریں گی۔
ماہم منظور پی سی بی ڈیجیٹل سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ دوسری کئی لڑکیوں کی طرح ان کی کرکٹ بھی گلی محلے کی ٹیپ بال سے شروع ہوئی اور پھر انڈر نائنٹین کے ٹرائلز دیے اور سلیکٹ ہونے کے بعد مرید کے میں ٹورنامنٹ بھی کھیلا۔
ماہم منظور بتاتی ہیں کہ ایک مرتبہ ٹی وی پر ویمنز کرکٹ کا میچ دیکھا تو دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ ثنا میر ۔ بسمہ معروف اور جویریہ خان کے ساتھ کرکٹ کھیلنی ہے۔ جویریہ خان ان کی پسندیدہ کرکٹر ہیں۔ وہ جس طرح میدان میں نظر آتی ہیں اس بات نے انہیں بہت متاثر کیا ہے۔
ماہم کہتی ہیں انہوں نے صرف ایک مرتبہ انڈر نائنٹین کرکٹ کھیلی لیکن اس کے بعد حیدرآباد میں ریجنل کرکٹ ختم ہوگئی ۔ انہیں یہ مشورہ دیا گیا کہ اگر صحیح معنوں میں کرکٹ کھیلنا چاہتی ہیں تو حیدرآباد کے بجائے کراچی کا رخ کریں لیکن یہ سب کچھ اتنا آسان نہ تھا۔
ماہم کا کہنا ہے کہ کراچی میں آکر کھیلنے کے سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا تھا ۔ وہ تقریباً ایک سال کراچی میں اپنی ایک رشتہ دار کا یہاں ٹھرتی رہیں لیکن مسائل کافی تھے جس کے بعد ایسا بھی ہوا کہ دو دن کراچی میں پریکٹس کی اور واپس حیدرآباد چلی جاتی تھی۔
ماہم منظور کے لیے اطمینان کا لحمہ وہ تھا جب انہیں ڈپارٹمنٹ میں ملازمت مل گئی اور وہ میچوں کے دنوں میں ہی حیدرآباد سے کراچی آتی تھیں کبھی کبھی تو ہفتے میں دو میچز بھی ہوتے تھے لیکن سینئر کرکٹرز کے تعاون کی وجہ سے مسلسل دو دن میچز ہوتے تھے جس کی وجہ سے مجھے یہاں زیادہ دن رہنا نہیں پڑتا تھا تاہم پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرنا آسان نہ ہوتا تھا۔
ماہم منظور کو ان کی فیملی نے ہمیشہ سپورٹ کی اگرچہ وہ مالی طور پر نہ سہی لیکن اخلاقی طور پر ہونے والی حوصلہ افزائی نے ان کی کرکٹ کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ پوری فیملی ان پر انحصار کرتی ہے انہوں نے جب سے کرکٹ شروع کی ہے مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن ان کی ڈپارٹمنٹ سے آنے والی تنخواہ ان کے لیے بہت اہمیت رکھتی تھی۔اگر وہ نہ ہوتی تو شاید وہ کرکٹ چھوڑ چکی ہوتیں جتنا سخت وقت انہوں نے دیکھا۔
ماہم منظور کو اس بات کا دکھ ہے کہ ان کے والد انہیں پاکستان کلر میں نہ دیکھ سکے ۔ ان کا خواب تھا کہ ان کی بیٹی کرکٹ کھیلے اور اپنے ملک کا نام روشن کرے لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور وہ پانچ سال قبل انتقال کرگئے تھے۔وہ ہمیشہ حوصلہ بڑھاتے تھے کہ اچھی امید رکھو ۔جلد سے جلد کچھ ہوجائے گا۔
ماہم منظور کہتی ہیں کہ نیشنل کا ٹارگیٹ ہے لیکن اس سے پہلے جو بھی مرحلے آتے رہیں گے انہیں عبور کرنا ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ وہ یہاں تک بھی پہنچی ہیں اور انہیں امید ہے کہ ایک دن وہ نیشنل ضرور کھیلیں گی۔انہوں نے جتنی محنت کی ہے انہیں لگتا ہے کہ انہیں کھیلنا چاہیے اور اتنی جلدی ہار نہیں ماننی چاہیے۔
ماہم منظور کا نئی کرکٹرز کو یہی مشورہ ہے کہ اگر ان میں کھیلنے کا شوق اور ٹیلنٹ ہے تو وہ گھر سےنکلیں اور کوشش کریں ۔سب کے ساتھ مسائل درپیش ہوتے ہیں سینئر کرکٹرز نے بھی مسائل کا سامنا کیا ہوگا جبھی آج وہ اس مقام پر ہیں۔گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اگر فیملیاں سپورٹ نہیں کرتیں تو ان سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنی بچیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔