سرکاری عمارت میں صحافی پر حملہ، تشدد اور سیکورٹی
مسرت اللہ جان
20 جون 2023 کا دن راقم کیلئے عام سا دن تھا، پریس کلب میں روزمرہ کے کام اورکھیلوں کی خبریں بھیجنے کے بعد پشاور پریس کلب کے دوستوں سے ملاقات اور کھانے کے بعد پشاور سپورٹس کمپلیکس جانا ایک روٹین ہی تھا، اور اپنی روٹین کے مطابق راقم سپورٹس کوریج کیلئے پشاور سپورٹس کمپلیکس میں داخَل ہوا، انٹر مدارس کھیلوں کے مقابلے جو کہ ضم اضلاع سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے منعقد کروائے تھے کے کھلاڑیوں کی فوٹیج لینے کے بعد عصر کی نماز مسجد میں پڑھی اور نماز پڑھنے کے بعد راقم پشاور سپورٹس کمپلیکس کے گیٹ سے باہر نکلنے لگا، گیٹ سے نکلتے ہی ایک نامعلوم شخص جس کے ہاتھ میں بڑا ڈانڈا تھا اٹھا کر راقم کو مارنے کی کوشش کی جو خوش قسمتی سے راقم نے ہاتھ پر روک لیا، اسی دوران ایک اور شخص نے پیچھے سے کندھے پر اسی سائز کے ڈنڈے سے وار کیا.اور پھر راقم پر کولہو، ہاتھوں سے ڈنڈے لگنے لگے، راقم گیٹ کے باہر سے بھاگ کر اندر آگیا اور مارنے والے شخص کو بتانے لگا کہ پاگل ہوگئے ہو، کیا میری تمھاری کوئی ذاتی دشمنی ہے، جو اس طرح تشدد کررہے ہو، اسی دوران ایک کیئرٹیکر جو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کھڑا تھا نے ا س ڈنڈے والے کو پیچھے سے پکڑ لیا، اور وہ چیخیں مارتا رہا کہ وہ راقم کو نہیں چھوڑے گا کیونکہ اس نے میرے بھائی کو مارا ہے. راقم آٹھ دس ڈنڈے کھانے کے بعد چوکیدار کے ساتھ پڑے کرسی پر بیٹھ گیا اسی دوران وہ تشدد کرنے والا شخص ان لوگوں سے جان چھڑلا کر راقم کے گھٹنے پر لکڑی کا ڈنڈا مار کر چلا گیا جس کے بعد راقم کے پاؤں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور پھر لوگوں نے راقم کو ہسپتال منتقل کردیا.
یہ پشاور سپورٹس کمپلیکس میں کسی بھی شخص پر ہونے والا تیسرا حملہ تھا، ایک ہفتہ قبل اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے مسجد کے باہر وزیرستان سے تعلق رکھنے والے فٹ بالر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اس سے قبل ایک سکواش کے کھلاڑی کو صفائی کرنے والے برش سے مار کر اس کا ہاتھ توڑ دیا گیاور یہ تیسرا واقعہ راقم کے ساتھ پیش آیا جب اسے نامعلوم افراد نے جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی اب سامنے آئی ہیں میں دو افراد نے چہروں کو سفید کپڑوں سے چھپا رکھا ہے جبکہ ایک شخص جس کی چھوٹی چھوٹی سی داڑھی ہے کھلے عام سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں داخل ہو کر راقم کو بغیر کسی وجہ کے تشدد کا نشانہ بنا کر چلا جاتا ہے. اور سیکورٹی پر تعینات سوائے چند ایک کے کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہیں کہ ایک سرکاری بلڈنگ میں نامعلوم افراد گھس کر تشدد کرتے ہیں اور پھراندر بھی داخل ہوتے ہیں اور پھر گاڑی میں فرار بھی ہو جاتے ہیں.
راقم گذشتہ انتیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہے اور گذشتہ تین سالوں سے مسلسل صرف شعبہ سپورٹس اور شعبہ سیاحت کے حوالے سے رپورٹنگ کررہا ہے اور سپورٹس میں ہونیوالی گھپلوں، کھلاڑیوں کیساتھ زیادتیوں، ڈیپارٹمنٹ کی غلطیوں سمیت ایسوسی ایشنز کی کی جانیوالی انسانی سمگلنگ، کنسٹرکشن کے غیر معیاری ہونے سے متعلق خبریں، رپورٹس بمعہ ویڈیوز و ثبوت کے شائع کررہا ہے.جس کا مقصد صرف اور صرف کھیلوں اور کھلاڑیوں کی بہتری ہے تاکہ ہمارے صوبے سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی آگے نکل آئیں اور انہیں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے.خیبر پختونخواہ میں کھیلوں کے وزارت کے سیکرٹری بھی موجودہ وقت میں ریٹائرڈ کیپٹن ہے، ڈائریکٹر جنرل بھی پاک آرمی میں کپتان رہے ہیں اور انکی موجودگی میں صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ہونیوالا یہ تیسرا واقعہ جہاں سپورٹس ڈائریکٹریٹ ْخیبر پختونخواہ میں بہت ساری خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے جس کی نشاندہی قبل ازیں بھی راقم کر چکا ہے.جس میں ڈیلی ویج ملازمین کی سیکورٹی پر تعیناتی ہے، پچیس ہزار روپے میں کوئی بھی سامنے نہیں آتا اور وہ بھی اس صورت میں جب چوکیداری پر تعینات ڈیلی ویجز کے پاس اسلحہ بھی بھی غیر معیاری ہو جس کی رپورٹ قبل ازیں تھانہ گلبرگ کے حکام اپنی رپورٹ میں دے چکے ہوں، غیر تربیت یافتہ یہ چوکیدار صرف گیٹ کھولنے اور بند تو آسانی سے کرسکتے ہیں لیکن ان سے سیکورٹی کی توقع رکھنا ایسے ہی جسے کسی خواجہ سرا سے بچے کی پیدائش کی امید رکھنا.
پشاور سپورٹس کمپلیکس کے سامنے گیٹ پر ہونیوالے اس حملے میں شامل دو افراد جنہوں نے چہروں کو چھپایا ہوا تھا سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ان کو خطرہ تھا کہ راقم ان کو پہچان لے گا،یا پھر یہ وہاں پر تعینات افراد کے جاننے والے تھے. تبھی انہوں نے چہرے کو چھپا رکھا تھا، اور گیٹ کے سامنے تشدد اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ساری گڑ بڑ اسی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اندر سے ہی ہے، کیونکہ نکلتے ہی حملہ آور کا یہ چیخ مارنا کہ کہ راقم نے میرے بھائی کو مارا ہے اس کو گولی ماریں گے اپنے لئے ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش ہے، کیونکہ ر تیس سال کی صحافت میں اللہ تعالی نے راقم کو اور کچھ دیا ہو یا نہ ہو عزت الحمد اللہ بہت دی ہے کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا، ہاں اگر غصہ بھی کیا تو اس جگہ پر جانا چھوڑ دیا جہاں پرکوئی مخالف ہو.شعبہ صحافت میں اپنے ساتھیوں کے علاوہ پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے طعنے بھی سنے ہیں گالیاں بھی سنی ہیں کہ راقم کیسا صحافی ہے کہ نہ اس کی گاڑی ہے، نہ کہیں پر بنگلہ ہے نہ کہیں پر گاڑیاں چلتی ہیں اور نہ ہی پولیس کے کسی اعلی افسر سے جان پہچان ہے.ان سب باتوں اور طعنوں کے باوجود راقم اللہ تعالی کا شکر گزار ہے کہ جتنے بھی دوست دئیے، خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو، مخلص اوربہترین ہیں جس طرح کا رویہ اور برتاؤ راقم کیساتھ رکھتے ہیں راقم ان کیلئے یہی دعا کرسکتا ہے کہ اللہ تعالی میرے تمام ساتھیوں، دوستوں کو دونوں جہانوں میں کامیاب کرے.راقم پربیس جون کے بعد ہونیوالے حملے کے بعد دوستوں کے رابطے نے بتا دیا کہ سب کچھ اللہ تعالی کے دائرہ اختیار میں ہے.اور وہی کن فیکون ہے.1993 سے روزنامہ جدت سے لیکر آج 2023 تک شعبہ صحافت سے وابستگی جس میں پرنٹ، الیکٹرانک اور اب سوشل میڈیا سے وابستگی رہی ہے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ راقم نے کسی کیساتھ جھگڑا کیا ہوگا، کسی کو مارا ہوگا، فقیر آباد سے شعبہ بازار فٹ پاتھوں پر پیدل پھر کر کیرئیر کا آغاز کیا تھا جو تاحال جاری و ساری ہے، اور اس پر راقم اللہ تعالی کا شکر گزار بھی ہے.
راقم کے اس بلاگ لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ تشدد کرنے والوں کو یہ بتادیا جائے کہ آپ نے اپنی طرف سے راقم کو مارنے کی بھرپور کوشش کی لیکن اللہ تعالی نے راقم کو بچا لیا، آج چوتھا دن ہے، راقم گھٹنے پر لگنے والے چوٹ کے باعث نہ صرف سجدے کی لذت سے محروم ہیں چلنے پھرنے کا بھی مسئلہ ہے اور جبڑے پر لگنے والے ضرب کے باعث راقم مشکل صورتحال سے دو چار ہے، دائیں ہاتھ پر لگنے والے ضرب کے باعث اس بلاگ کو لکھنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے. انشاء اللہ یہ دوراور وقت ختم ہوجائے گا. لیکن یہاں پر ایک سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر پشاور صدر کے علاقے میں راقم پر حملہ ہوتا، سی سی ٹی وی فوٹیج بھی ملتی ہے، گاڑی بھی نظر آتی ہیں، اور پشاور کینٹ کا سارا علاقہ کیمروں کی زد میں ہے ایسے میں تین افراد کا سرکاری ڈیپارٹمنٹ میں آنا، تشدد کرکے نکل جانا نہ صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں پائی جانیوالی خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ پکڑے گئے شخص کو چھوڑنا بھی سوالیہ نشان ہے سب سے بڑا سوالیہ نشان تاحال ایف آئی آر کا اندراج نہ ہونا شامل ہے.
اپنے اوپر ہونیوالے تشدد کے اس واقعے کے بعد راقم کا یقین اس بات پر مزید پختہ ہوگیا ہے کہ جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے، جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے وہی ہو کر رہتا ہے اور پھر اسی میں اللہ تعالی یہی بھی دکھا دیتا ہے کہ بچانے والا بھی میں ہوں، خیر عیادت کیلئے آنیوالے تمام دوستوں کا شکریہ، جو گھر پر آئے، فون پر رابطہ کیا، میسج کیا، عیادت کی، ان سب دوستوں کی محبت کا شکریہ، ایک بات راقم اسی بلاگ کے ذریعے واضح کرنا چاہتا ہے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسی طرح تشدد کرکے راقم کو دباؤ میں لائے گا اور راقم اپنے کام سے ہٹ جائے گا تو یہ ان کی خام خیالی ہے بقول میرے کچھ صحافی دوستوں کہ کچھ معاملات میں وہ راقم کو ,دا سپئی لکئی ” سے تشبیہہ دیتے ہیں، یعنی کتے کی ٹیڑھی دم،، اگر تشدد کرکے یہ سمجھتا ہے کہ راقم کو لکھنے سے باز رکھ سکے گا تو یہ ان کی غلط سوچ ہے، راقم اپنا کام اسی طرح جار ی رکھے گا.اور رہی اس واقعے میں ملوث افراد کی بات، تو انشاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب یہ سب کچھ سامنے آئیگا.
جولائی کی جگہ جون لکھا اور پڑھا جائے ۔ شکریہ